قارئین حیرت ہے بلکہ ہمارا ذہن یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ آخر پُوری دُنیا کس طرف جا رہی ہے؟ لگتاہے ہر ایک کے اندر جنون کا ایک جِن پھر رہا ہے کہ کس طرح دوسروں کی زندگی اور مفادات کو رَد کر کے سب سے پہلے خود دُنیا کی ہر نعمت، ہر عہدے اور ہر نفع سے فیض یاب ہو لیا جائے اگر ایسا نہ ہو سکا کہ اگر میں نے فلاں کام نہ کیا تو دُنیا کیا کہے گی اور اگر یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ تب تک آپ مکمل طور پر خام ہیں۔ آپ کے اندر کی آنکھ ابھی نہیں کُھلی، آپ مسلسل اندھیرے میں ہیں اور قطعاً حقیقت پسند نہیں ہیں یعنی آپ اُن لوگوں کی رائے پر زندہ ہیں جو آپ کے کچھ بھی نہیں لگتے ہیں یا کم از کم جن کی اچھی یا بُری رائے سے نہ آپ کی دُنیا بگڑ سکتی ہے نہ آخرت سنور سکتی ہے میں سمجھتی ہوں اس سے زیادہ انسانی دانست کی شکست اور کیا ہو گی یا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں خود کوئی مضبوط رائے ذاتی طور پر قائم نہ کر سکے بلکہ کوئی دوسرا شخص اُسے اُس کے بارے میں رائے قائم کر کے دے مثال کے طور پر اگر آپ خوبصورت نہیں ہیں اور کوئی آپ کو یہ کہہ دے کہ آپ حد درجہ خوبصورت ہیں تو آپ خوش ہو جاتے ہیں اس کے برعکس اگر آپ سچ مچ خوبصورت ہیں اور کوئی آپ کو بدصورت کہہ دے تو کیا آپ اُن کی یہ رائے تسلیم کر لیں گے؟ اگر کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ حد درجہ بلکہ انوکھے قسم کے بہادر ہیں غلط کو ٹھیک اور ٹھیک کو غلط کہنے اور مان لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاہم بنیادی طور پر بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ آپ دراصل لوگوں کی رائے پر جی رہے ہیں جو آپ کے ناکام اور خام ہونے کی کُھلی دلیل ہے آپ نے اپنی مرضی سے کامیاب اور حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت ز ندگی گزارنی ہے تو سب سے پہلے یہ کیجئے کہ اپنے دل و دماغ سے ”لوگ کیا کہیں گے“ کے الفاظ کوکُھرچ کر پھینک دیجئے۔ دراصل کسی سے بلاوجہ متاثر ہونا یا کسی کو متاثر کرنا آپ کے احساسِ کمتری کی دلیل ہے بلکہ بالواسطہ طور پر اُس کو خود سے متاثر کروانے کی ایک بے معنی کوشش ہے جو آخر کار آپ کی تضحیک کا باعث بنتی ہے یا بن سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ لوگوںکے کچھ کہنے سُننے پر توجہ دینے کی بجائے آپ اپنی اقلیمِ ذات پر خود حکمرانی کرنا سیکھیں اُن کو اِس حد تک اپنی ذات میں دخیل نہ کر لیں کہ اُن سے ہر وقت خود کو منوانے کے لئے آپ کو اپنے گلے کی رگیں پُھلا پُھلا کر متاثر کرنا پڑے۔ اس سے آپ کی شخصیت کا موجودہ چھوٹا قد مزید چھوٹا ہو جائے گا۔
قارئین کرام آپ کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہنی چاہئے کہ آپ جو بھی ہیں جو بھی عمل کر رہے ہیں یاکریں گے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ہے اور ہونا چاہئے کوشش کریں کہ ہر لمحہ اس کے عذاب سے ڈر کر رہیں تاکہ فرشتے آپ کے اعمال نامے میں اچھی رائے درج کریں یہ دنیا اور دنیا کے لوگ آپ کو اچھا یا بُرا کہہ کر روزِ قیامت آپ کے اعمال کے میزان میں کچھ بھی نہیں ڈال سکیں گے سارے بوجھ آپ نے اپنے ہاتھوں سے خود ڈالنے اور اُٹھانے ہونگے اُس وقت آپ کے قریب وہ لوگ نہیں ہونگے جن کے بارے میں آپ نے یہ سوچ کر غلط زندگی گزاری کہ وہ کیا کہیں گے....یاد رکھیئے زندگی آپ کی ہے اُسے گزارنا بھی آپ کا ذاتی عمل ہے یہ کسی کے کچھ کہنے یا نہ کہنے پر انحصار نہیں کر رہی، آپ نیک، پاکیزہ اور ایسی سادہ زندگی گزارئیے کہ اس دُنیا سے آپ کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی لوگ کہہ سکیں کہ آپ نے جو زندگی گزاری اُس سے اُن کو فائدہ پہنچا ہے، کوئی اچھا سبق مِلا ہے بلکہ یہ کہ اُسے یاد کر کے وہ لوگ خود بھی ”لوگ کیا کہیں گے“ کے دائرہِ ضرر سے آپ کی طرح باہر نکل سکیں....یہی انسان کی بعداز موت دوسروں پر فتح حاصل کر لینے کی فاتح دلیل ہے بلکہ اگر آپ نے تمام عمر نیکی، پاکبازی اور دوسروں کی فلاح و اصلاح کے حوالے سے گزاری ہے تو یہ صدقہِ جاریہ ہو گا آپ کو تادیر یاد رکھا جائے گا اور اس حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ آپ ”لوگ کیا کہیں گے“ کے سستے رویے اور نعرے سے باغی رہے ہیں تبھی زندگی کو ذاتی سوچ کے تحت خوش اسلوبی سے گزارا اور یہی ہمارے نزدیک انسان کی عارضی اور ارضی زندگی کا مقصدِ وحید ہے۔ آخرت کی فتح مندی ہے ۔