اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے اپنے چیئرمین عمران خان کو اور مسلم لیگ ن کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے میاں شہبازشریف کو وزارت عظمٰی کیلئے امیدوار نامزد کردیا جس کے بعد سیاسی منظر واضح ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کیلئے ”اپوزیشن لیڈر“ کے منصب کے تقاضے بارے میں افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ نمبر گیم واضح نہ ہونے کی صورت میں دونوں جانب سے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن کسی وقت بھی چھوٹے پارلیمانی گروپ پریشان کن صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ وزارت عظمٰی کی دوڑ میں ناکامی پر میاں شہباز شریف نہ صرف قائد حزب اختلاف ہوں گے بلکہ پارلیمنٹ کی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے۔ اس طرح سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کا منصب مسلم لیگ ن کے حصے میں آئے گا۔ اس وقت شیری رحمٰن قائد حزب اختلاف ہیں ان کو یہ منصب چھوڑنا پڑے گا اور سینٹ کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن ہونے کے ناطے اسی کا قائد حزب اختلاف ہوگا۔ راجہ محمد ظفر الحق سینٹ کے نئے قائد حزب اختلاف ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف تاحال سپیکر و ڈپٹی سپیکر کیلئے امیدواروں کا حتمی فیصلہ نہیں کرسکی۔ 11 اگست تک تحریک انصاف کی جانب سے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے امیدواروں کا اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔ شاہ محمود قریشی کا نام سپیکر کیلئے لیا جارہا ہے عمران خان نے انہیں وزیر خارجہ بنانے کی پیشکش کی لیکن وہ سپیکر بننے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اسی طرح پرویز خٹک کو وفاق میں لایا جارہا ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں ”نمبر گیم“ نے غیر معمولی صورتحال اختیار کرلی ہے۔ 20حلقوں سے الیکشن کمشن کو نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیئے جانے سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی قائد ایوان سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابی شیڈول کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ 8اگست کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمشن کے دفتر کے سامنے مظاہرے میں شو آف پاور ہوگا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پیر کی شب بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل سے بلوچستان ہاو¿س میں مذاکرات کرتے رہے۔ رات گئے تک اختر مینگل عمران خان سے مذاکرات کےلئے بنی گالہ جانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
سیاسی منظر