کچھ قصے شہر ٹورانٹو

ہم جتنا چاہیں اتنا ہنس سکتے ہیں اپنی اخلاقی تننزلی پر،اپنے چھوٹے پن پر ،اپنی جھوٹی انائوں پر اور اپنے اوپر چڑھائے خولوں پر ،مگر جب دن کا اختتام ہوگا تو ہمیں ایک دفعہ جی بھر کر رونا پڑیگا کہ ایسے رویے اینڈ آف دی ڈے آنسوئوں پر ہی جا کر ختم ہوتے ہیں ۔ پرائیویسی اور عوام میں انتشار کے خوف سے نام صیغہ راز رکھوں یا فرضی ناموں سے قصے بیان کروں؟ یہ میں نے حسب ِ معمول اپنی انگلیوں کی روانی پر چھوڑ دیا ، قلم کی روانی اس لئے نہیں کہہ سکتی کہ سالوں سے لیپ ٹاپ پر ڈائریکٹ اردو ٹائپ کی عادت پڑ چکی ہے ، قلم کو ہاتھ لگا لوں تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور میری بھی ۔ تو بات ہو رہی تھی ان فر ضی کرداروں کی جو ہر گز فرضی نہیں ہے لیکن مصلحتا انہیں۔ فر ض کیا جا رہا ہے۔ ٹورنٹو ، وہ شہر ہے جس نے مجھے بے شمار محبتیں،عزت اور نام دیا اور جب اوپر بیٹھی ذات ایسی انمول چیزیں دیتی ہے تو ساتھ بلاوجہ کی نفرتیں اور دشمنیاں بھی آپکے کاسے کے سکے بنتے ہیں اس لئے احتیاط ضروری ہے کسی بھی وقفے کی طرح ۔تو سنئیے۔ایک دوست ہیں دل کے سادہ مزاج ہیں ، لمبے چوڑے ہونے کی وجہ سے دیکھنے میںاپنے "بچے جیسے دل" کے برعکس تاثر دیتے ہیں ۔ چونکہ ہماری ان سے سالہا سال کی دوستی ہے اور ایک معمول ہے کہ جب بھی ان کے دل پر کوئی چوٹ لگتی ہے تو ان کا ایک میسج آتا ہے "کین آئی کال یو نائو ۔"۔ تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ شہر ِ ٹورنٹو میںکچھ ہونے والا ہے یا ہو چکا ہے اسی روٹین کے زیر ِ سایہ ایک دن ایسا بھی آیا جب انہوں نے مجھے یہ قصہ سنایا ۔ شہر کی ایک معزز خاتون ہیں ، ان کا نام بھی ہے اور کام بھی اچھے کرتی ہیں۔انکی بیٹی یا بیٹے کی شادی تھی ۔ تو ہمارے معصوم دوست بھی وہاں انوائٹیٹڈ تھے ، بیگم سمیت گئے ۔۔ خوشی خوشی شادی اٹینڈ کر کے آئے بلکہ جانے سے پہلے مجھ سے پو چھا کہ آپ کو دعوت ہے ، میں نے خوشی سے لبریز آواز میں بتایا کہ الحمد اللہ میں انوائیٹیڈ نہیں ہوں ( خوشی ، ایویں نہیں تھی ، کیونکہ مجھے ان خاتون کے ہاتھ پہلے ہی لگ چکے تھے اور میں نہ بلائے جانے پر مسرور تھی۔ بلا لی جاتی تو جھوٹ اور بہانے کرنے پڑتے جس سے طبیعت بلاوجہ بوجھل رہتی ہے)۔خیر ہمارے دوست نے مجھ سے اظہار ِ افسوس کیا جیسے میں شہر کی اہم تقریب میں شرکت سے محروم ہو گئی ہوں ،میں نے اپنی خوشی پھر بھی چھپائے رکھی ۔۔میری خوشی اور دوست کے شاک کی سمجھ اس قصے کو سننے کے بعد آئے گی جو انہوں نے مجھے تڑپ کر سنایا ۔۔آپ بھی انہی کی زبانی سنیں تڑپیں یا ہنسیں یا روئیں آپکی صوابدید پر چھوڑ دیا ۔۔ "میں اور بیگم ۔۔۔کی بیٹی کی شادی پر گئے ۔(ڈیش ،اپنی اپنی سمجھ کے مطابق فل کر لیجیئے گا پو را قصہ پڑھنے کے بعد) ۔اٹینڈ کر کے خیر خیریت سے گھر آگئے ، گھر آکر سوئے ، صبح اٹھے ، ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ میسج کی ٹرنگ بولی ، دیکھا ،اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ، اُسی ۔۔ محترمہ کا تھا ، لکھا تھا ۔ آپ اور آپ کی بیگم صاحبہ میری بیٹی کی شادی پر تشریف لائے ، بہت شکریہ ، آپ آئے ، آپ نے کھانا بھی کھا یا لیکن آپکی طرف سے نہ دلہن نہ دلہا کو سلامی دی گئی ۔ کیونکہ جتنے سلامیوں والے لفافے نکلے ہیں ان میں آپ کے نام کا ایک بھی نہیں ہے ۔ یہ میسج پڑھتے ہی میں نے انہیں میسج لکھا کہ میں نے سو ڈالر ( عام ریٹ ہے ) کا لفافہ ایک محترمہ پھر رہی تھیں جن کے ہاتھ میں کچھ لفافے تھے تو سمجھا انہی کو دینا ہے دے کر واپس آگیا ہوں بی بی۔ پھر جواب آیا :نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ اور آپ کی بیگم آئے ،آپ نے کھانا کھایا اور بغیر سلامی دئیے آگئے ، آپکا یہ رویہ مناسب نہیں ہے ۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن