جتنا تکبر اپوزیشن اتحاد کے لیڈروں نے سینیٹ کے چیئرمین سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے بعد بار بار دکھایا اپنے الفاظ سے اپنے رویوں سے اپنی باڈی لینگوئج سے اس کی مثال اگر ڈھونڈنا مشکل ہے تو جو اس عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ دیکھ کر اپوزیشن کے جملہ لیڈروں کے چہرے پر رسوائی و ذلت کی جو جھلک نمایاں ہو کر ان کے غرور اور تکبر کو تو خاک میں ملا ہی گئی ان کی سیاسی کشتی کو بھی ڈبو گئی۔ ن لیگ کے سربراہ شہباز شریف کا کھانا ہو یا باپ کے جیل جانے کے بعد زیادہ نمایاں ہونے والے بلاول زرداری کی دعوت اپوزیشن کے سارے سینیٹروں کے چہروں پر فتح و کامیابی ہنسنے ہنسانے قہقہے لگانے اور عددی اکثریت کے بل بوتے پر اپنے جیسے ان سینیٹروں کا تمسخر اُڑانے جو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کر رہے تھے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میڈیا پر بار بار پارٹی پوزیشن اس طرح بتائی جا رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو، شہباز شریف کے علاوہ ان سب کے مشترکہ امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ حاصل بزنجو کے تکبر اور خودسری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ سینیٹ میں قائدِ ایوان شبلی فراز نے سیاسی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مولانا کے پاس جانا جن کا سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے یا ہٹانے میں عملاً کوئی کردار نہیں اور جن جماعتوں کے سینیٹر نہیں ان کی قیادت سے ملنا اور ان سے جس جواب کی توقع تھی وہ جواب لینا شاید سیاست میں کوئی انہونی بات نہ ہو مگر حاصل بزنجو کے پاس جانا تو…ع
ہم کوچۂ رقیب میں سر کے بل گئے
والی بات تھی۔ حاصل بزنجو کے تکبر اور غور کا یہ عالم تھا کہ اس نے ساری سیاسی رواداری آنے والے سینیٹروں کے منہ پر ماری اور کہا 64 ارکان کی حمایت ہے ہی تو اس دن جیت گیا تھا جس دن مجھے اپوزیشن نے نامزد کیا تھا اور پھر بلاول، شہباز کے کھانوں میں سب سینیٹروں کے جانے سے تو کسی انہونی اور غیر متوقع بات کی طرف دھیان نہ گیا مگر جب سینیٹ میں حاصل بزنجو کی نامزدگی کی چونسٹھ کے چونسٹھ اپوزیشن سینیٹروں نے تائید کی تو مجھے دال میں کالا نظر آ گیا۔ ربع صدی سے بھی ز یادہ عرصہ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں ڈین آف آرٹس کے انتخابات یاد آ گئے۔ ڈ اکٹر منیر الدین چغتائی جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے ڈین کے عہدہ کا انتخاب لڑ رہے تھے ان کے مقابلہ میں سوشل ورک کی پروفیسر ڈاکٹر رفعت رشید تھیں۔ پریذائڈنگ افسر نے کارروائی کا آغاز کیا، ایک پروفیسر صاحب نے ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کا نام بطور امیدوار پیش کیا ، آدھے سے زیادہ پروفیسر تائید کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور یوں لگا جیسے بغیر ووٹ ڈالے ہی ڈاکٹر چغتائی جیت گئے ہیں۔ بعض زیادہ متحرک پروفیسروں نے آگے بڑھ کر مبارکباد دی۔ پریذائیڈنگ افسر نے اس مبارک سلامت کو کو روکا اور کہا کوئی اور امیدوار ہے؟ ایک پروفیسر صاحب نے ڈاکٹر رفعت رشید کا نام دیا۔ تائید کنندہ کے لیے دو تین بار پریذائیڈنگ افسر کی طرف سے اعلان ہوا مگر پورے ہال میں کسی نے اس نامزدگی کی تائید نہ کی۔ بالآخر ایک پروفیسر نے اس بے حسی پر کھڑے ہو کر پورے ہال کا جائزہ لیا ہر کولیگ پر نظر ڈالی اور کہا کوئی بات نہیں جو ہو گا دیکھا جائیگا بہرحال’’ میں تائید کرتا ہوں ‘‘ تائید کنندہ اپنی اس جرأت یا غیرت پر کسی قسم کی تحسین کی توقع نہیں رکھتا تھا اور نہ وہاں بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کی بزدلی یا مصلحت پر ان کو شرمندہ کرنا چاہتا تھا۔ خیر ووٹ ڈالے گئے، گنتی ہوئی پریذائیڈنگ افسر نے حروف تہجی کے اعتبار سے رزلٹ کا اعلان کیا ڈاکٹر رفعت رشید کو 28 ووٹ پڑے اور ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کو 13 ، ڈاکٹر رفعت رشید جن کے امیدوار ہونے کی کوئی تائید کرنے کو تیار نہ تھا اپنے اس مخالف امیدوار سے جس کی تائید آدھے سے زیادہ پروفیسر کھڑے ہو کر کر چکے تھے دوگنا سے بھی زیادہ ووٹوں سے شکست د ے چکی تھیں۔ ڈاکٹر منیر الدین چغتائی بوکھلاہٹ میں پریذائیڈنگ افسر کے پاس گئے کہنے لگے رزلٹ الٹ تو نہیں بتا دیا اور اس بوکھلاہٹ میں اپنے ساتھیوں سے پوچھتے ہیں کیا ہوا۔ میں نے کہا جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا لیکن اپنے جوشیلے سپورٹروں کو جس انداز سے ممکن ہے بے عزت ضرور کیجئے۔
حاصل بزنجو کا سارا سیاسی قد کاٹھ پاکستان اور پاک فوج کو گالیاں دینے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ محب وطن سینیٹروں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا یا پاکستان اور اس کی محافظ فوج کو گالیاں دینے والے امیدوار کو مسترد کر دیا۔ بغض معاویہ میں سیاسی فیصلے کرنے والی اپنی لیڈر شپ کے فیصلے سے بغاوت کر دی ووٹ کے تقدس کا بھی خیال کیا اور اسے امانت سمجھ کر حقدار کو اس کا حق دے دیا۔ اپنی کوتاہ فہم قیادت کو بتا دیا کہ ہم کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ جدھر چاہو ہانک کر لے جائو۔ پیپلز پارٹی والے وہ سینیٹر زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے کل پارٹی قیادت کے کہنے پر سنجرانی کو چیئرمین کا ووٹ دیا تھا اور آج پارٹی قیادت کے یوٹرن لینے اور بغیر کسی وجہ سے سنجرانی کی مخالفت کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے علاوہ ان جماعتوں کو زوال کی پستی تک لے جانے میں بڑا حصہ ڈالنے والے بھی کل تک جن سینیٹروں کو پلکوں پر بٹھا رہے تھے۔ کھانے کھلا رہے تھے آج یہ رزلٹ دیکھ کر سیخ پا ہو رہے ہیں۔ حالانکہ سینیٹرز نے آئین پاکستان کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اسے ہارس ٹریڈنگ کہنا شرمناک ہی ہے اور آئین کی توہین بھی۔ کل کے دوستوں کو ضمیر فروشی کی طعنہ دے رہے ہیں حالانکہ تصویر کا ایک یہ بھی رخ ہے کہ اپنے ضمیر کو قیادت اور مفادات کے سامنے گروی رکھنے والے بیلٹ بکس والے باکس کی تنہائی میں بھی اس ضمیر کی آواز نہیں سن سکے جہاں ان کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ آواز نہیں سُنی تھی وہ بے شعور قیادت کے خوف اور بلیک میلنگ سے خود کو آزاد نہیں کر سکے اب سوچنا یہ ہے کہ جنہیں وہ ضمیر فروش کہہ رہے ہیں ان کا ضمیر جاگا ہے یا جنہوں نے اپنے ضمیر کو گروی رکھا ہے ان کا ضمیر مر گیا ہے۔ ایسے میں کسی کا یہ شعر ؎
جانے کیوں ہے غیر کی آنکھوں میں تنکے کی تلاش
جانے کیوں واقف نہیں ہوں آنکھ کے شہتیر سے
لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کے زرخرید غلاموں کے علاوہ ہر کوئی اسے درست فیصلہ کہہ رہا ہے۔ شرمناک ہے بلاول زرداری کا یہ کہنا کہ سینیٹ میں کھلے عام دھاندلی ہوئی، خفیہ رائے شماری ختم کرانے کے لیے تحریک جمع کرائیں گے تو پھر قومی انتخابات میں خفیہ رائے شماری کا کیا کرینگے۔
بدنصیب ہے وہ شخص جو اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتا ہے اور یہی فارمولا اپوزیشن کی اس بکھری قیادت کے بارے میں لاگو ہو رہا ہے جو اپنی ناکامی اور اپنے سیاسی تابوت میں کیل لگنے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا رہے ہیں کسی نے تو دیکھنا تھا کہ حاصل بزنجو کی اسی وطن اور یہاں کے عوام کے لیے خدمات کیا ہیں اور سنجرانی کی شرافت اور اصول پسندی کی سزا اسے کیوں دی جائے قصہ مختصر یہ کہ …؎
تکبر عزازیل را خوار کرد
بذندان لعنت گرفتار کرد