بھارت کو جتنی گالیاں کوئی اور دے سکتا ہے، میں اس سے کئی لاکھ گنا زیادہ گالیاں بھارت کو دوں گا۔
مگر مجھے کہنے دیجئے کہ بھارت کا میڈیا اور بھارت کا پارلیمانی عمل ہم سے کہیں زیادہ آزاد، شفاف اورمستحکم ہے۔
جمعہ دو اگست کے بعد سے جب ہمارے اسی نوے میڈیا چینلز کراچی کے کچرے پر بحث میں مصروف تھے۔ اس وقت بھارتی میڈیا کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی لمحہ بہ لمحہ تصویر کشی کررہا تھا۔
میرے ملک کے میڈیا کامنہ کشمیر پر بات کرنے سے کس نے بند کیا۔
دوسرے بھارت میں پانچ اگست کو راجیہ سبھا اجلاس شروع ہوا تو جب تک اس نے تینوں قراردادیںمنظور نہیں کر لیں، اس کی کاروائی لمحہ بھر کے لئے بند نہیں کی گئی اورا سے براہ راست نشر کیا گیا۔ خواہ ایوان میں کس قدر شور وغوغا مچا ہوا تھا۔ ارکان نے اسپیکرڈائس کا گھیرائو بھی کیا ہوا تھا۔ وہ ایک دوسرے پر لعن طعن بھی کررہے تھے ، اپنے گریبان بھی تار تار کرر ہے تھے۔مگر کیا مجال کسی نے ایوان کی کاروائی کو لمحہ بھر کے لئے بھی سنسر کیا ہو۔
مجھے بھارت سے شدید نفرت ہے۔ بے انتہا اختلافات بھی ہیں مگر میںنے اس کے پارلیمانی ایوانوں میں جو تقاریر سنی ہیں ، ان سے مجھے اپنے پارلیمانی عمل کے بونے پن کا شدت سے احساس ہوا۔ بھارتی ارکان پارلیمنٹ آئین اور قانون کے حوالے دے دے کر اپنی بات ا ٓگے بڑھا رہے تھے۔ کاش ً ہمارے ارکان پارلیمنٹ بھی پوری تیاری سے ایوان میں خطاب کی روش اختیار کر سکیں۔
کشمیری بہتر برسوں سے تنہا تھے۔ بھارت کے رحم و کرم پر تھے۔ اب بھی وہ تنہا ہیں اور بھارت کے رحم و کرم پر ہیں۔ دنیا کشمیر میں ایسے قتل عام کا مشاہدہ کرنے جا رہی ہے جو قتل عام اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا ہوا۔ جو قتل عام امریکہ کے ہاتھوں عراقیوں کا ہوا، جو قتل عام امریکیوں کے ہاتھوں افغانیوں کا ہوا اور جو قیل عام مختلف ممالک کے ہاتھوں شامیوں کا ہو رہا ہے اور جو قتل عام آنگ سو چی جیسی امن کی نوبل انعام یافتہ جمہوری شخصیت کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوںکا ہورہا ہے۔ ایسا ہی قتل عام بوسنیا کے مسلمانوں کا ہوا۔ اور کون جانے کہ کاشغر میں کس قدر قتل عام ہو چکا ہے۔ ان مسلمانوں کی تحریک آزادی کی تاریخ تو کئی صدیوں پر محیط ہے۔
کشمیر میں بھارت کی نو لاکھ سفاکا اور جابر فوج ہو گی اور نہتے کشمیری ہوں گے جنہیں بھارت زیادہ سے زیادہ پتھر باز کہتا ہے ، یہ لوگ پتھروں سے ایٹمی اسلحے سے لیس بھارتی فوج کا کیا مقابلہ کر پائیں گے۔فلسطینیوں کے ہاتھوں میں غلیلیں تھیں۔ ان کے سامنے اسرائیلی ٹینک تھے۔ فضائوں میںایف سولہ تھے اور گھروں پر میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی۔ فلسطینی صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔اسرائیل ان کی زمینوں پر دندنا کر قابض ہے اور بچے کھچے فلسطینی ملکوں ملکوں کیمپوں میں خاک چاٹنے پر مجبور ہیں۔ کیا پتہ کشمیریوں کا کیا حشر ہونے والا ہے ۔ خدا ان کی حفاظت کرے ۔ ہمارے پاس دعائوںکے سوا کچھ نہیں۔ میرے مرشد مجید نظامی یہ حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ انہیں کسی ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں کی بھارتی فوجی چھائونی پر داغ دیا جائے۔ بھٹو کو پھانسی نہ ملتی اور وہ آج زندہ ہوتا تو میں اس سے سوال کرتا کہ گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے کا نعرہ کیوں لگایا۔ یہ ایٹم بم کشمیریوں کا تحفظ نہیں کر سکا۔ یہ ایٹم بم پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت سے محفوظ نہیں رکھ سکا۔ یہ ایٹم بم کارگل میں پھنسے مجاہدین کی جانیں نہ بچا سکا ، اور یہ ایٹم بم سیاچین کو بھارت کے قبضے میں جانے سے نہ روک سکا۔ اس ایٹم بم کے ہوتے ہوئے میرے ستر ہزار معصوم ہم وطن، دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور میرے ملک کی مسلح افواج کے چھ ہزار جوان ا ور افسر بھی شہادت سے ہمکنار ہو گئے۔ بھٹو ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے اس دنیا میں نہیں ہے مگر ا سکی پارٹی تو ہے ۔ وہ میرے ان سوالوں کا جواب دے۔ یہ سوال صرف میرے نہیں، پوری قوم کے ہونٹوں پر لرز رہے ہیں۔
میں اپناکالم گھسیٹے چلا جا رہا ہوں اور میری پارلیمنٹ کسی اندھیرے کی لپیٹ میں ہے۔ میرا وزیر اعظم ایوان میں آنے سے قبل یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کے خلاف ہوٹنگ نہ کی جائے۔ میری خواہش ہے کہ اپوزیشن کو لکھ کر یہ یقین دہانی کرا دینی چاہئے مگر ہم اپنے وزیر خارجہ کو ایوان میںکیسے دیکھ سکتے ہیں جنہیں بھارت کے مذموم عزائم کی پوری پوری خبر تھی مگر وہ حج پر چلے گئے۔ سو پارلیمنٹ کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ پاکستان کے سامنے کیا سفارتی امکانات باقی رہ گئے ہیں۔ اگر بھارت امر ناتھ کے یاتریوں کو واپس بلا سکتا ہے تو ہم اپنے وزیر خارجہ کو حج سے واپس کیوںنہیں بلا سکتے۔
اس مایوس کن صورت حال میں میرے لئے چند ایک خبریں اطمینان بخش ہیں۔ ایک تو وزیر ریلوے شیخ رشید کی رگ حمیت کو سلام۔ میں ان پر الگ کالم لکھوں گا۔ اسی طرح میرے ملک کے آرمی چیف نے فوری طور پر اپنے کور کمانڈرز کاا جلاس طلب کیاا ور یہ اعلان کیا کہ وہ بھارتی اقدام کے خلاف اور کشمیریوں کی حمایت میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ بھارت کو اس پیغام پر غور کرنا چاہئے اور دنیا کو اپنی انا کی بھینت چڑھانے سے گریز کرنا چاہئے۔
میرے ملک کے کور کمانڈرز جس طرح سینہ تانے بیٹھے نظر آئے مگر بھارتی فوج کے جرنیل اس طرح سینہ تان کر کیمروں کے سامنے آنے کی جرات نہیں رکھتے۔ وہ بزدلوں کی طرح نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کا ہی قتل عام کر سکتے ہیں۔ان کی دلیری اور بہادری کی آخری حد یہی ہے۔
اپنے ملک کے میڈیا سے میری توقع ہے کہ وہ اپنی آزادی کے حق کو سلب نہ ہونے دے۔ بھارتی میڈیا بتا رہا ہے کہ بھارتی سیکورٹی ایڈوائزر ا جیت دوول سری نگر میں موجود ہے ۔ بھارتی میڈیا سری نگر کے اعلی افسران کے حوالے سے بتا رہا ہے کہ وادی کے حالات کسی قدر بھی خراب ہو جائیں تو کسی کو راشن پانی کی فکر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہم نے تین ماہ کا راشن اور پٹرول ذخیرہ کر لیا ہے۔ بھارتی میڈیا قیدو بند کے شکار فاروق عبداللہ سے انٹر ویو کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ فاروق عبداللہ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی گئی ہے مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بند کرے ۔اس نے کسی کو گولی ہی مارنی ہے تو میرا سینہ حاضر ہے۔ میری پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا جائے۔
کیا میرے ملک کا میڈیا پارلیمنٹ کے اندر نہیں گھس سکتا۔کیا میرے ملک کا میڈیا وزیر اعظم کے گھر نہیں پہنچ سکتا اور عوام کو یہ نہیں بتا سکتا کہ وزیر اعظم ایوان میں کیوں نہیں آ رہے۔ کیا میرے ملک کا میڈیا مکہ کی پہاڑیوں پر فوکس نہیں ہوسکتا جہاں کہیں ہمارے وزیر خارجہ عبادت میںمصروف ہیں۔ اور کیا میرے ملک کی پارلیمنٹ اپنا اجلاس جاری نہیں رکھ سکتی اور اگر اسے حکومت کی قرارداد پر اعتراض ہے تو اپنی قرارداد لے آئے۔اسے منظور کر لیا جائے تو بھارت کو پتہ چل جاتا کہ ہم متحد ہیں ۔ہم نے تو پارلیمنٹ کے اجلاس کو روک کر ثابت کر دیا کہ ہم بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے بھی زیادہ انتشار کا شکار ہیں۔
خدا خدا کر کے پارلیمنٹ کااجلاس شروع ہو گیا ہے۔
اس اجلاس سے قوم کو کیا ملا،کشمیریوں کو کیا ملااور بھارت کو کیا پیغام ملا۔ اگر کسی کی سمجھ میں کچھ آیا ہے تو مجھے بھی سمجھا دیجئے۔