بچوں کے سینوں میں برچھے مارے‘ زندہ جلایا گیا: وزیر احمد

ملتان (سماجی رپورٹر) آزادی ایک بہت بڑی نعمت اور عطیہ خدا وندی ہے اس کا اندازہ صحیح معنوں میں ان لوگوں کو ہے جنہوں نے اس کی خاطر ہزاروں جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ان خیالات کا اظہار ضلع کرنال کے شہر کنج پور سے ہجرت کر کے آنے والے وزیر احمد نے ہم نے پاکستان بنتے دیکھا میں کیا انہوں نے کہا کہ میری عمر 10 سال کی تھی کہ اچانک چاروں طرف فسادات پھوٹ پڑے ہر طرف خوف کا سماں تھا کوئی ہمیں باہر نہ نکلنے دیتا کہ مار دیئے جاؤ گے ہر کوئی گھر کے اندر دبک کر رہ گیا ہمارے گاؤں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اچانک 5 سو سے زائد ہندو ہاتھوں میں گنڈاسے ‘ بندوقیں‘ برچھے لے کر ہمارے گاؤں پر حملہ آور ہو گئے مسلمان مقابلہ کرنے کے لئے ڈٹ گئے تو ہندو ٹرکوں پر سوار ہوئے اور پھر کچھ دنوں بعد ہندو فوجی اور سکھ گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے جن کے پاس بڑے بڑے ہتھیار تھے جو ہماری آنکھوں کے سامنے مسلمان بچوں کو پکڑتے دیوار کے ساتھ لگاتے اور سینے میں برچھیاں پار کر دیتے بچوں کو آگ میں زندہ پھینک دیا یہ سارے درد ناک واقعات مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سہتے رہے پھر فسادات آگ کی طرح بھڑک اٹھے گاؤں کو ہندوؤں نے آگ لگا دی تو ضلع کرنال کے گاؤں پپلی میں لگے ایک بڑے کیمپ میں پناہ لینا پڑی کیمپ میں کوئی 20 ہزار سے زائد لوگ پناہ گزین تھے باہر مسلمان پہرہ دیتے تھے نواب لیاقت علی خان نے چاول گوشت کی دیگوں کا ایک ٹرک بھجوایا تو ہندو فوجیوں نے چھین کر ہندوؤں میں تقسیم کر دیا باقی جو کچھ بچ گیا اسے باہر پھینک دیا۔ مسلمانوں کے پاس جو چنے موجود تھے کھا کر پانی پی لیتے‘ لیکن اس دوران پھر ہندو حملہ آور ہوئے تو اﷲ نے غیبی مدد کرتے ہوئے آسمان سے بارش برسانا شروع کردی تو ہندو واپس لوٹ گئے۔ 20 میل کا پیدل سفر بھوکے پیاسے طے کیا ہر طرف سے پاکستان کا مطلب کیا کے نعرے بلند ہو رہے تھے کرنال سے کچھ میل کے فاصلے پر مارکنڈا دریا تھا جو بہت وسیع و عریض تھا۔ اس کے ایک طرف خشک جزیرہ پر کیمپ لگا دیا گیا جہاں ہیضہ کی ایسی وبا پھوٹ پڑی کہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوئیں جن میں سب سے زیادہ بچوں اور بزرگوں کی جنہیں بغیر جنازوں کے گڑھا کھود کر دفن کر دیتے اس ہیضہ کی وباء میں میرے دو بڑے بھائی اور نمونیا سے ایک بہن انتقال کر گئے ایک دن گاڑی آ گئی ہم گاڑی میں پہنچے تو تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہماری گاڑی کا ڈرائیور بھاگ گیا تو ایک مسلمان نے گاڑی چلانا شروع کردی واہگہ بارڈر پر پہنچے تو پاکستانی فوج نے چاول تقسیم کئے اور گاڑی سے نعشیں نکالیں اور ہزاروں مسلمانوں کو واہگہ بارڈر کے نزدیکی قبرستان میں تدفین کے بعد ضلع گوجرانوالہ وزیر آباد پہنچے کچھ دن قیام کے بعد ملتان اور پھر لیہ جا پہنچے۔

ای پیپر دی نیشن