لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کے خلاف درخواستوں پر سماعت 26 اگست تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس میں کہا کہ جس طرح کے حکومت نوٹیفکیشن جاری کر رہی ہے، میں نے آج تک ایسے نوٹیفکیشن نہیں دیکھے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ہوم پنجاب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری قانون پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ عدالت نے معمولی جرائم میں ملوث ان تمام ملزموں کا ریکارڈ طلب کر لیا جن کو نوٹیفکیشن کی معطلی کے بعد سزائیں ہوئیں۔ آئی جی جیل خانہ جات نے عدالت کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ معمولی جرائم میں ملوث 17 ملزم پرائس کنٹرول ایکٹ کے تحت جیلوں میں اب بھی موجود ہیں۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے عدالت کے نوٹیفکیشن معطلی کے بعد اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے نوٹیفکیشن کی معطلی کے آرڈر کے بعد پرائس کنٹرول کے تحت کیسے ملزموں کو سزائیں ہو گئیں۔ دیکھنا ہے کہ نوٹیفکیشن کو معطلی کے بعد یہ سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پتہ نہیں حکومت کے لیگل امور پر کون مشیر ہیں جو حکومت کو غلط مشورے دیتے ہیں۔ سیکرٹری قانون سمیت محکمہ قانون کی کارکردگی صفر ہے۔ سیکرٹری قانون کی مشاورت کے بغیر کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ سیکرٹری قانون کی کارکردگی ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کی موجودگی میں آرڈر جاری کیا مگر اسکی دانستہ تعمیل نہ کی گئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف سیکرٹری نے زبانی طورپر ٹیلی فون پر صوبہ بھر کے ڈی سی اور اے سی صاحبان کو عدالتی حکم سے آگاہ کیا تھا۔ عدالت نے سرکاری وکیل کے جواب سے اتفاق نہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے حکومتی نوٹیفکیشن پر عمل درآمد معطل کیا، اس پر چیف سیکرٹری نے کیسے تعمیل کروائی۔