غلام رسول ولد محمد اسماعیل‘ ونئیے کے امرتسر انڈیا‘ فیصل آباد پاکستان

Aug 07, 2020

ڈاک ایڈیٹر

میرے والد چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ تحریکِ آزادی پاکستان کے وقت جب بھی ہمارے قریبی شہر امرتسر میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تو ہم لڑکے اور ہمارے بڑے پورے جوش و جذبہ سے جلسہ میں شرکت کرتے۔ میں نے قائداعظمؒ، لیاقت علی خان اور دوسرے اکابرین مسلم لیگ کی بہ نفس نفیس تقریریں سن رکھی ہیں۔ جب آزادی پاکستان کا اعلان ہوا تو سکھ جتھے ہمارے گائوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے تو ہم ان کا بھرپور جواب دیتے کیونکہ ہمارے گائوں کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی پھر ہندو اور سکھوں نے ڈوگرہ فوج کے ساتھ مل کر ہمارے گائوں پر رات دو بجے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں تقریبا سارا گائوں شہید ہو گیا۔ بمشکل 40تا50مسلمان زندہ بچے۔ میں نے اپنی جان تالاب میں چھلانگ لگا کر بچائی۔ میں رات کے اندھیرے میں بارڈر کی طرف سفر کرنے لگا۔ آگے چل کر  میرے ساتھ چار لوگ اور مل گئے ان میں دو آدمی اور زخمی تھے چونکہ بارڈر ہمارے گائوں سے صرف سات میل کے فاصلے پر ہی تھا اس لیے ہم رات کی تاریکی میں ہی بارڈر پر پہنچ گئے۔ دوسرے دن ہم جلو موڑ پر ہر آنے والے گاڑی سے آنے والوں میں اپنے عزیزوں کو دیکھ رہے تھے تو ایک گاڑی سے میرے والد اور والدہ اترے تو میں نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور شہر لاہور کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ہمیں رشتہ دار مل گئے وہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ پھر میری والدہ اور والد نے اپنی داستانِ غم سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ تمہارے دونوں چچا اور تمہارا تایاجان اس کے تینوں بچے‘ دوسرے چچا کے چار بچے‘ ایک تائی اماں اور چچی سب کے سب شہید ہو چکے ہیں۔ آپ کی ایک چچی اور اس کی بہو اور اس کے تین بچے انکا کوئی پتہ نہیں کہ ان کو کوئی لے گیا ہے یا وہ بھی شہید کر دیے گئے ہیں۔ جن کا آج تک مجھے سراغ نہیں ملا۔ اس کے علاوہ ہمارے کل 29افراد تھے جن میں سے ہم صرف تین یعنی میری والدہ‘ والد اور میںزندہ بچ سکے۔ میرے پورے خاندان سے 26افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ لاہور میں ہم دو ماہ تک رہے پھر ہم لائل پور (فیصل آباد) آ گئے جہاں میں بیس سال تک کرایہ کے مکان میں رہا۔ میں نے کسی کے ایک برتن تک کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اب میرا اپنا مکان ہے جو صرف دو مرلہ پر محیط ہے اور اللہ کا شکر ہے۔ جب میں شروع کے دو ماہ لاہور میں تھا تو میں نے لاہور ریلوے سٹیشن پر بڑی مسجد میں نماز پڑھی اور اپنے رب سے دعا مانگی کہ یا للہ مجھے چار بیٹے دینا‘ دو بیٹوں کو میں پڑھا لکھا کر فوجی جوان بنائوں گا اور ان ہندو سکھوں سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لوں گا لیکن مجھے اللہ نے دس بیٹیوں سے نوازا‘ بیٹا صرف ایک ہی ہے وہ بہت فرمانبردار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں غلام رسول نے کہا کہ پاکستان کے حصول کے لیے میرے خاندان کے26افراد کے علاوہ لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن جس مقصد کے لیے یہ قربانیوں دی گئیں وہ مقصد پورا نہ ہو سکا۔ آج ملک میں چوری‘ ڈاکہ زنی‘ رشوت‘ ملاوٹ‘ کرپشن‘ بددیانتی عروج پر ہے۔ ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہیں۔ 

مزیدخبریں