سورج پوری طرح ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ میرے Silent موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب میری گوری کولیگ تھی جس نے صبح صبح میری خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کیا تھا کیونکہ گزشتہ 2 ماہ سے میری طرح وہ بھی home Isolated ہو کر رہ گئی تھی۔ اتنی صبح یاد کیا خیریت تو ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ Yes, I am fine اس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ گزشتہ کئی ماہ سے تمہیں دیکھا نہیں بات چیت بھی نہیں ہو سکی بلکہ assignments پر ہونے والی ہماری روٹین ملاقاتیں بھی اب گھر تک محدود ہونے تک رہ گئی ہیں اس لئے سوچا کیوں نہ کسی دن Face to Face ملاقات کی جائے؟
جی تو میرا بھی چاہتا ہے مگر افسوس! 2 میٹر Self Distancing‘ ماسک اور گلوز پہننے کی مجبوری بدستور آڑے آ رہی ہے تم ہی بتائو ایسے حالات میں کسی طرح ملاقات اگر کر بھی لی جائے تو منہ ڈھانپے ہوئے کسی بھی کرنٹ موضوع پر کھل کر تبادلہ خیال کرنا ہمارے لئے یقیناً دشوار ہو گا۔ لفظوں کی ادائیگی کیلئے زبان اور آنکھ جس طرح ضروری ہیں کھلے چہرے سے مفہوم کی آگہی بھی اسی طرح اہم ہے مگر افسوس! یہ دونوں کام جان لیوا وائرس COVID-19 کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ Kathy کو میں نے اس کی تعلیمی قابلیت کے مطابق فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔ جس پر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ خیر چھوڑو ان فلسفیانہ باتوں کو سنائو تم کیسی ہو؟ میں نے اس سے دوبارہ پوچھا۔ یہ تو میں جانتا ہوں کہ ہماری Forlougn لائف غیر معینہ مدت تک جاری رہے گی مگر مجھے یہ بتائو کہ تمہاری Dazy (پالتو کتیا کا نام) کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟
’’گریٹ‘‘ جو تم نے پوچھ لیا۔ وہ بولی! کیا بتائوں ڈیزی ہی تو ہے جس کے سہارے ’’کرونا‘‘ کا مقابلہ کر رہی ہوں۔ گھر سے طویل عرصہ تک کام کرنے نے عجیب ذہنی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ سوچتی ہوں یہ لٹل ڈیزی بھی فلیٹ میں اگر ساتھ نہ ہوتی تو نہ جانے اب تک حالت کیا ہو گئی ہوتی۔ کسی دفتری دوست سے تو دور کی بات کسی عزیز سے نہیں مل سکی۔ تم ویڈیو لنک کا سہارا کیوں نہیں لے لیتی۔ کیتھی کو میں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ یہ بھی کر گزری ہوں مگر یہ تصویر گفتگو زیادہ اذیت ناک ہے۔ Cavan سے ایک بار معہ ماسک ملاقات ہوئی تھی سماجی فاصلے کا خیال بھی رکھا تھا۔ مگر وہ فیس ماسک اتارنے کے حق میں نہیں تھا اور یہی وہ بنیادی ماحولیاتی اذیت ہے جس نے مجھ سمیت برطانوی ینگسٹرز کی ایک بڑی تعداد کو متعدد بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ متعدد ماہ کی قدغن سے مجھ سمیت سینکڑوں دوستیاں دائو پر لگ گئی ہیں۔ ویڈیو لنک پر مستقبل کے خوبصورت لمحات کی عکس بندی تو کی جا سکتی ہے مگر عملی زندگی کے عہد و پیماں کو پورا کرنا ممکن نہیں۔گھبرائو نہیں سماجی فاصلوں اور ماسک پر لگی حکومتی پابندیوں میں نرمی کو پہلے سے زیادہ اب مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ جہاں دو ماہ کا مشکل ترین عرصہ تم نے ڈیزی کے ہمراہ گزار لیا چند ہفتے اور انتظار کر لو۔ سماجی آزادی کا سورج جلد طلوع ہونیوالا ہے اس لئے "Be Brave" اسے میں نے ایک اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا۔ کینتھی نے ایک بار پھر بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے میری ان نصیحتوں کا شکریہ ادا کیا۔ پھر قدرے توقف کے بعد بولی! اچھا یہ بتائو برطانوی یونیورسٹیوں اور ہائیر ایجوکیشن اداروں کو ہونے والا تین اعشاریہ انیس بلین پونڈ نقصان کیسے پورا ہو گا؟ اس پڑھی لکھی گوری کی شاید صبح صبح ’’مت‘‘ ماری گئی تھی۔ ’’نور پیر دے ویلے‘‘ وہ اس طرح کے حسابوں میں گم ہو کر خواہ مخواہ فکرمندی کا اظہار کر رہی تھی۔ حالانکہ یہ وقت اسے اپنی ڈیزی کو بریک فاسٹ دینے کا تھا۔ دل ہی دل میں مجھے اس پر غصہ آنے لگا تھا مگر میں ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ دو ماہ بعد کیسے اسکے فون پر اسکی دل شکنی کا باعث بنوں۔ ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے میں نے اس سے کہا۔ کہ یہ نقصان وقصان چھوڑو… اولین ضرورت کرونا سے بچائو اور اس جان لیوا وائرس کی ویکسی نیشن کی تیاری کا معاملہ ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں برطانیہ کے متعدد شہروں میں کرونا کی دوسری لہر آ چکی ہے جس کی بنیادی وجہ دو میٹر کی سماجی دوری اور فیس ماسک نہ پہننے کی کھلے عام خلاف ورزی سامنے آئی ہے اسی لئے حکومت کو اب ’’ماسک‘‘ لازمی قرار دینا پڑا ہے جس کا اطلاق عام شخص‘ خاص شخص‘ سکول‘ کالجوں‘ یونیورسٹیز‘ گاہک اور چھوٹے بڑے سٹوروں سمیت دکانداروں پر بھی ہو گا۔ ماسک نہ پہننے والے یا نہ پہننے والی کو 100 پونڈ جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ اس سے قبل کہ کیتھی کوئی اور سوال پوچھے میری بھرپور کوشش تھی کہ ’’کرونا‘‘ کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں اختصاراً اسے مزید کچھ اطلاعات بہم پہنچاتے ہوئے Talk You Later کہتے ہوئے فون بند کر دوں۔
ہاں! تو سنو! بات جا ری رکھتے ہوئے میں نے اس سے کہا۔ ’’کرونا‘‘ کے بارے میں زیادہ کھوج لگانے کے بجائے زیادہ توجہ اپنی صحت‘ اور اپنی تنہائی کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے پر دو۔ یہ وائرس تا ہنوز سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہتر ہے خداوند یسوع مسیح سے دعا مانگو۔ انسان سے ہی غلطی سرزد ہوتی ہے کہ مٹی کی یہ مورت بڑی عجیب شے ہے۔ زندگی میں گناہ بھی ہوتے ہیں… کیونکہ بے گناہ زندگی نہیں ہوتی۔ وزیراعظم بورس جانسن نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی یہ اقرار کیا ہے کہ حکومت پہلے کچھ ہفتوں تک COVID-19 کو سمجھ ہی نہیں پائی۔ ابتدا میں اگر یہ سمجھ آ جاتی تو ہو سکتا تھا کہ مختلف طریقوں سے اس جان لیوا وائرس پر کسی حد تک قابو پا لیا جاتا۔ وزیراعظم خود چونکہ اس وائرس کا شکار ہو کر صحت یاب ہوئے ہیں اس لئے اس وبا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے وہ اب کسی بھی معمولی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا ہے کہ آئندہ 2021ء کے اوائل تک کرونا کا بڑھتا زور شاید مکمل طور پر ٹوٹ جائے اگر انہوں نے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ فی الوقت وہ کوئی Prediction اس لئے بھی نہیں کر سکتے کہ جب تک شہری احتیاطی تدابیر پر مکمل طور پر عمل پیرا نہیں ہوتے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم عمل کو اگر یقینی بنایا گیا تو ہو سکتا ہے سماجی دوری کے دو فٹ کے فاصلے کو نومبر 2020ء سے ایک فٹ کر دیا جائے۔ Kathy میری اوازاری شاید اب بھانپ چکی تھی اس لئے اس نے یکدم OK اور پھر hope, we will meet soon کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔ گارڈن کی کھڑکی سے نظر باہر دوڑائی تک سورج مکمل طور پر طلوع ہو چکا تھا ۔ کیتھی کی حالت دیکھ کر اچانک مجھے یہ مصرع یاد آ گیا۔
’’محبت روٹھی جاتی ہے کسے بھیجوں منانے کو‘‘