لندن (این این آئی) برطانوی مورخ، سوانح نگار اور جنوبی ایشیا اور کشمیر سے متعلق متعدد کتابوں کی مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت گزشتہ برس کے دوران کشمیریوں کے دل و دماغ جیتنے میں ناکام رہی ہے۔5 اگست 2019 سے کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے بارے میں بھارتی حکومت نے بڑے پیمانے پر غلط فہمی پر مبنی مہم چلائی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو اپنے موقف کے مخالف کردیا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں حال ہی میں کشمیر کی صورتحال پر بین الاقوامی سطح پر زیادہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں طاقت ور کی حکمرانی رائج ہے اور بھارتی حکومت عالمی برادری اور کشمریوں کے موقف کو نظر انداز کرکے اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بھارتی حکومت مقامی قیادت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں ناکام رہی۔ ڈومیسائل قانون میں تبدیلیوں کے اقدام سے کشمیر میں استحکام پیدا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بجائے خاردار تاروں اور اونچے باڑ والے علاقوں کی طرف لے جائے گا جس سے عوام مزید ناخوش ہوں گے۔ بھارت ایک سیاسی مقصد کے لیے پوری آبادی کو تبدیل کر رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ عالمی برادری کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس بارے میں بات کرے لیکن اس سے بھارت کو تکلیف ہوتی ہے۔ انہیں بھارتی سول سوسائٹی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے متعلق اقدام ملک کی سیکولر اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ کشمیر میں بڑھتی ہوئی ناراضگی پائی جارہی ہے اور یہ ایک انتہائی دھماکا خیز صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ مودی کی حکومت کے بعد ہی اس اقدام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی پسپائی ہوجاتی ہے تو یہ صرف چار برس میں نئی حکومت کے بعد ہوگی، ابھی صورتحال بہت کشیدہ رہے گی۔ پاکستان جو عملی اقدام اٹھا سکتا ہے ان میں کشمیریوں کو اخلاقی مدد فراہم کرنا ہے۔ مصنفہ نے کہا کہ او آئی سی، بھارت پر دبائو ڈالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اسلامی ممالک، او آئی سی جب مسئلہ کشمیر کی بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر تقسیم ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں واقعی مسئلہ کشمیر پر اکٹھا ہونا چاہیے۔ وکٹوریہ شوفیلڈ نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بین الاقوامی فورمز میں لے جانا چاہیے اور دوسرے ممالک کی حمایت کے لیے لابنگ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مکالمہ ایک سب سے اہم طریقہ ہے۔
بھارت کی جابرانہ پالیسی سے کشمیریوں میں نفرت بڑھی: برطانوی خاتون مورخ
Aug 07, 2020