گمنام گائوں کا آخری مزار

کتابیں پڑھنا مجھے بچپن ہی سے ایک Fantasyکی طرح لگتا ہے۔ آپ نے اپنی مرضی کی کتاب ہاتھ میں پکڑی تو کتاب آپ کی انگلی پکڑ کر اک نئی دْنیا کی سیر کروانے کو نکل جاتی ہے۔جہاں صرف آپ اور آپکی ہمسفر خوبصورت کتاب ہوتی ہے اور کوئی قباحت نہیں ہوتی۔زمانہ بدلا، کتاب کا پڑھنا کسی حد تک کم ہواانٹرنیٹ اور E-Booksنے بڑی تیزی سے اسکی جگہ لی لیکن جو مزہBook Readingمیں ہے، سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ آپ کو وہ تسکین پہنچا ہی نہیں سکتا۔خوبصورت کتابیں پڑھنا اور جمع کرنا میرا شوق رہا ہے۔رفتہ رفتہ کتابوں کے موضوعات اور لکھاریوں کا اسلوب وبیان بھی تبدیل ہوتا گیا۔سکول وکالج کے زمانے میں پڑھی جانے والی کتابوں کا سحر آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ایک طویل عرصہ کے بعد معروف صحافی وکالم نگار رئوف کلاسرا کی دونہایت خوبصورت کتب’’گمنام گائوں کا آخری مزار اورشاہ جمال کا مجاور‘‘میرے ہاتھ لگیں بلکہ میں نے ان کتب کو پڑھنے کی شدید خواہش کے ردعمل کے طور پر اپنی کاوش سے حاصل کیا اور تسلی سے رفتہ رفتہ ان کا مطالعہ کیا اگرچہ یہ دونوں کتب اتنی دلچسپ ہیں کہ لگاتار ایک دو نشستوں میں ہی پڑھ لینے کی خواہش ہوتی ہے لیکن کچھ مصروفیات آڑے آئیں تو مجھے ان کا مطالعہ کرنے میں چند دن لگے۔ویسے بھی میں ان کو جلدی جلدی ورق گردان کرنے کی بجائے صفحہ صفحہ سطر سطر محسوس کرنا چاہتی تھی۔ہرجملے کا ذائقہ اپنے اندر اْتار لینا چاہتی تھی۔بہت سالوں کے بعد حقائق پر مبنی واقعات و مشاہدات کو پڑھ کر مجھے بچپن کی Fantasisکی یاد بھی تازہ ہوگئی۔کچھ تحاریر ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو اپنے ساتھ باندھ لیتی ہیں۔ارد گرد کے ماحول سے بے خبر کردیتی ہیں۔مصنف کے لکھے ہوئے تجربات و مشاہدات آپ کو اپنے ساتھ بیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ آپ ان لمحوں میں جینے لگتے ہیں۔ماضی کے دریچوں میں کچھ دیر کیلئے لوٹ کر جانا ایک حسین تجربہ ہے ان کتابوں کیساتھ آپ بھی کچھ دیر کیلئے اپنے ماضی کی خوبصورت یادوں میں کھو جائیں گے۔گمنام گائوں کے آخری مزار کے پہلا صفحہ پر ہی درج رئوف کلاسرا کا جملہ۔ وہ تحریریں جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں واقعی اس بات کی تصدیق کتاب کے مطالعہ سے کرتی ہیں۔ پہلا نام اور پہلا عنوان ہی آپ کی انگلی تھام لیتا ہے اور چاچا میرو کی یادیں دراصل گائوں کی روایات سے جڑی یادوں کے ساتھ سفر ہے۔مصنف اس قدر حساس ہے اور اتنی باریک بینی سے اپنے اردگرد کے لوگوں، اشیاء اور واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے جسے ہم اپنی زندگی میں اکثر فراموش کردیتے ہیں۔بچپن سے لے کر جوانی اور پھراب تک کی زندگی میں رئوف کلاسرا نے صرف لوگوں کو یاد نہیں رکھا ان کی خوبیوں اور خامیوں کے شخصی خاکے اتنی محبت اور گہرائی سے بیان کئے گئے ہیں کہ ان سے ملے ہوئے لوگ دوبارہ ان سے ملنے کی خواہش کرکے انکو دریافت کرنے کی کوشش کرینگے بلکہ نہ ملے ہوئے لوگوں کو یہ نامانوس لوگ جانے پہنچانے اور مانوس سے لگنے لگتے ہیں اور مصنف کی وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنی بھی وابستگی،محبت اور عقیدت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ملتان کا نیک دل جیلر،غریب فاطمہ کی کہانی، لندن کی میڈم لوبس، سیالکوٹ کا پیر، بیگم ڈپٹی کمشنر، یونان کی نتاشا اور اٹلی کا ماریو،بدین کی فہمیدہ اور لیہ کی حسینہ، ملتان کاراشد رحمن، بھٹو،خان اور یاوت،بنگال کا چودھری،ملتان کا آخری مغل، جیسے ناموں سے ہی کرداروں سے آپکو واقفیت تو ہوگئی ہوگی، یہاں خاص وعام، نیک وبد سب کا ذکر ہے، چاچا میرو جیسے ایک عام بندے سے لیکر بھٹو صاحب تک خاص الخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے۔یہاں دین سے محبت کی باتیں بھی ہیں اور دنیا کی دلکشی کے قصے بھی ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوان بھی موضوع بحث ہیں ،جگہیں، اشیائ، غرض ہر چیز سے الفت و محبت اور عقیدت کی داستانیں موجود ہیں۔دونوں کتابیں ایسی سینکڑوں ہزاروں یادوں کا طلسم کدہ معلوم ہوتی ہیں۔ دونوں کتابیں باکمال ہیں اور مصنف کے عمیق مشاہدہ کا شاندارشاہکار ہیں۔اپنی اپنی پسندہے شاید۔ لیکن مجھے گمنام گائوں کے آخری مزار نے زیادہ متاثر کیا ہے۔یہ الگ بات کہ شاہ جمال کا مجاور بھی لوگوں میں اپنی مقبولیت میں کسی طور پر پیچھے نہیں ہے۔جگہوں کی سیر کے ساتھ تاریخ کے واقعات قاری کی دلچسپی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔رئوف کلاسرا کو جملہ بْننے کا فن آتا ہے۔یادوں کوتصویر کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ہرعنوان دلچسپ ہے اور فوراً اس کو کھول کرپہلے پڑھنے کی خواہش ہونے لگتی ہے۔ میں نے ان دونوں کتب کے مطالعہ کے دوران اچھے ریڈر کی طرح پہلے سے آخری صفحہ تک نہیں پڑھا بلکہ ایک مضمون ختم کرکے اگلے کسی دلچسپ عنوان والے صفحہ کو کھول کر پڑھنا شروع کردیا۔لیکن میں نے ان دونوں کتب کودلچسپی، توجہ اور محبت کیساتھ پڑھا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن