تجزیہ محمد اکرم چودھری
جہانگیر ترین سیاست کرتے ہیں یا پھر کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ وہ ایک وضعدار سیاسی اور کامیاب کاروباری شخصیت ہیں، وہ سیاسی معاملات کو سیاسی میدان اور قانونی معاملات کو قانونی طریقے سے حل کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں، تمام تر اختلافات کے باوجود وہ آج بھی پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں اور غیر ضروری تنقید یا سیاسی بحران سے گریز کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہے تو وہ اسے نبھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین کے ساتھیوں کے ساتھ بجٹ منظور ہونے کے بعد سختی طے شدہ تھی اور اس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مستقبل میں کون کون جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے اس حوالے سے نمبرز کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ جے کے ٹی کا ساتھ وہی دے سکے گا جو مضبوط سیاسی کردار کا حامل اور کاروباری اور مالی اعتبار سے کسی غیر قانونی کام میں ملوث نہ ہو کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ سیاسی شخصیات کے ساتھ سیاسی معاملات سیاسی انداز میں طے کیے جائیں گے جبکہ قانونی معاملات میں سیاست نہیں کی جائے گی، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا اور کوئی سیاسی شخصیت قانون کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین سیاسی اننگز کھیلنے یا سیاسی طور پر متحرک اور مضبوط ہونے کے خواہشمند نہیں ہیں، جہانگیر ترین بھرپور اننگز کھیل چکے ہیں اب ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ تو سیاسی حالات کے مطابق ہو گا لیکن انہیں کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا پڑ سکتا ہے یا تو کل وقتی سیاست دان بنیں گے یا پھر کل وقتی کاروباری شخصیت کے طور پر نظر آئیں گے۔ جہانگیر ترین پر یہ واضح تو کیا جا چکا ہے کہ کاروباری معاملات یا قانونی مسائل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے اور وہ بھی بات سے اتفاق کرتے ہیں وہ کاروباری، سیاسی اور قانونی معاملات کو الگ الگ انداز سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ جہانگیر ترین پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ کب تک رہتے ہیں یہ سوال کروڑوں کا ہے۔