ظہیر اعظم جرال
آزاد کشمیر کے 13ویں پارلیمانی انتخابات کا اعصاب شکن مرحلہ بدھ کے روز 53 رکنی ایوان میں 33 ووٹ لیکر کامیاب ہونے والے سردار عبدالقیوم نیازی کے بحیثیت وزیراعظم آزاد جموں کشمیر حلف لینے کے بعد ابتدائی طور پر مکمل ہوگیا۔آزاد کشمیر میں الیکشن مہم سے قبل ہی پی ٹی آئی میں وزارت عظمیٰ کے منصب لیے غیر معمولی دلچسپی دکھائی دے رہی تھی ،لیکن 25 جولائی کو حکومت سازی کیلئے مطلوبہ اکثریت ملنے کے بعد وزارت عظمی کیلئے کئی نام قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے۔پی ٹی آئی کشمیر کے صدر سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور پی ٹی آئی کشمیر الیکشن مہم کے وائس چیئرمین اور مالی طور پر مستحکم سردار تنویر الیاس کو وزارت عظمی کی دوڑ میں مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا تھا۔ ان دونوں رہنماؤں نے الیکشن مہم میںبلا شبہ شاندار کاکردگی دکھائی۔ وزارت عظمی کی دوڑ میں مالی طور پرمستحکم سردار تنویر الیاس کو اگرچہ مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا تھا ، پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالماجد خان، سینئر سیاستدان خواجہ فاروق احمد، چوہدری اظہر صادق، نثار انصر ابدالی اور دیوان علی خان چغتائی کے نام بھی اس دوران زیر بحث رہے۔تاہم پی ٹی آئی کشمیر کے صدر سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو تجربے کے لحاظ سے ان سب پرسبقت حاصل رہی۔ ان پارٹی رہنماؤں کو اس الیکشن مہم کے دوران ملنے والی کامیابی بہرحال آزاد کشمیر کے نو منتخب وزیر اعظم کی کامیابی ثابت ہوئی ہے۔آخری مرحلے میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کیلئے کیونکہ پارٹی قائد نے اس کا فیصلہ کرنا تھا، اس لئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کچھ نومنتخب ممبران اسمبلی سے ملاقاتیں کر کے بالآخر اس غیر معمولی انتخاب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
نومنتخب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی کے انتخاب کے فیصلہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے آزادکشمیر کے پسماندہ ترین علاقے اور کنٹرول لائن سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن کو وزیراعظم نامزد کر کے ان الزامات کی نفی کر دی کہ پی ٹی آئی میں پیسہ یا بڑے قبیلہ کی بنیاد پر اہم منصب ملتا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق "دْلی’’ قبیلہ سے ہے جو آزاد کشمیر میں ایک محدود قبیلہ ہے، نومنتخب وزیر اعظم نہ تو بڑے سرمایہ دار ہیں اور نہ ہی اسمبلی میںاس قبیلے کا کوئی دوسرا رکن ہے جس پر غیر جانبدار سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک عام سیاسی کارکن کوآزاد کشمیر کا وزیر اعظم نامزد کر کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی پختگی اور قائدانہ ویژن کا مظاہرہ کیا ہے۔نو منتخب وزیر اعظم سردارعبدالقیوم نیازی نے ایوان میں پیش کی گئی مذمتی قرار داداوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی بھارت کی 5 اگست کی کارروائی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہیں۔آزاد کشمیر کی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی،اپوزیشن کو ہر مرحلے پر اعتماد میں لیتے رہیں گے،ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں۔ نومنتخب وزیر اعظم نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اسمبلی میں پہنچنے سے کچھ دیر قبل اپنی نامزدگی کی اطلاع ملی، میں ایک سیاسی کارکن ہوں وزیر اعظم کے امیدواران نت نئے سوٹ اور شیروانی سلا کر رکھتے ہیں لیکن جو کپڑے میں نے آج پہن رکھے ہیں کسی نے لا کر دیئے، یہ میرے اللہ کا کرم اور پارٹی چیئرمین کا ویژن ہے کہ میرے جیسا ایک عام کارکن بھی آج وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوا ہے، انہوں نے کہا پارٹی چیئرمین وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کے مطابق گڈ گورننس، قانون کی حکمرانی اور کشمیر کاز میری ترجیحات ہیں جبکہ متحدہ اپوزیشن میں قد آور سیاسی شخصیات کو اپنے لئے مثبت اور مفید علامت سمجھتا ہوں۔
پی ٹی آئی کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود نے نو منتخب وزیر اعظم کے حوالے سے کہا کہ پارٹی چیئرمین وزیراعظم عمران خان کو ہم نے اختیار دیا تھا کہ جس کو وہ وزیراعظم نامزد کریں گے ہم اسے قبول کریں گے لہذا میں نے اپنے پارٹی امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ بات انہوں نے اسمبلی ہال سے روانگی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ بیرسٹر سلطان محمود نومنتخب وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں باضابطہ دعوت نہ ملنے کے باعث شریک نہ ہوئے۔ بیرسٹر سلطان محمود کے حقیقی کزن چوہدری ارشد حسین کے متعلق اطلاعات ہیں کہ وہ سردار عبدالقیوم نیازی کی کابینہ میں شامل ہوں گے ۔ سال 1969 کو جنم لینے والے نومنتخب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق کنٹرول لائن پر واقع گاؤں درہ شیر خان تتہ پانی سے ہے انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1982 میں بطور ڈسٹرکٹ کونسلر کیا سال 2006 میں پہلی بار مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا۔وہ 2006 سے 2011 تک وزیر مال، جیل خانہ جات رہے۔ انہوں نے2011 کے بعد 2016 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور حلقہ کی عوام نے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تاہم مسلم لیگ ن کے امیدوار کی جانب سے انتخابی عذرداری میںمختلف پولنگ اسٹیشن کے مبینہ گھیراؤ جلاؤ کے الزام پر اس حلقہ میں دوبارہ پولنگ کرائی گئی اور مسلم لیگ ن نے یہ نشست جیت لی۔اپنی پارٹی قیادت کی الیکشن میں سرد مہری پر کچھ عرصہ ناراض رہنے کے بعد وہ تحریک انصاف آزاد کشمیر کا حصہ بن گئے۔ لائن آف کنٹرول کی وجہ سے آپ کا گھر کئی بار بھارتی گولہ باری سے متاثر ہوا اور خود بال بال بچے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے حلقے کے لوگوں کا ساتھ نبھایا اور فائرنگ کے دوران زخمیوں کی عیادت کیلئے پہنچتے رہے۔ آپ نے کبھی بھی اپنا گاؤں نہ چھوڑا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا پورا حلقہ ایل او سی پر واقع ہے اس لیے اگر وہ گاؤں چھوڑ دیں گے تو ان کے حلقے کے عوام کا مورال کم ہو گا۔ بھارتی توپوں اور گولوں کے سامنے کھڑے رہنے والے سردار عبد القیوم نیازی نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بنتے ہی سب سے پہلا مطالبہ کیا کہ ایل او سی کے لوگوں کو بینکر بنا کر دیے جائیں اور صحت سہولیات کی مہیا کی جائیں۔چنانچہ پہلی فرصت میں وفاقی حکومت سے ایل او سی کے لوگوں کو صحت کارڈ کی سہولت فراہم کی، سردار عبد القیوم نیازی نے ہمیشہ تمام قبائل کو ساتھ ملایا اور برادری ازم کی حوصلہ شکنی کی اور یہی وجہ ہے کہ اپنے حلقے میں عددی لحاظ سے تیسرے نمبر کی برادری ہونے کے باوجود ہمیشہ دیگر قبائل کے ہزاروں ووٹرز کا اعتماد لینے میں کامیاب رہے۔ سردار عبد القیوم نیازی انتہائی شریف النفس، ہمدرد، صوم و صلوٰۃ کے پابند درویش صفت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ 2 بار آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر بن کر وزارت کے منصب پر فائز رہے۔ آپ کے ایک چھوٹے بھائی سردار حبیب ضیاء سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے منجھے ہوئے وکیل ہیں آپ کے تیسرے بھائی امریکا میں مقیم ہیں آپ کا ایک بیٹا برطانیہ میں قونصلر ہے، آپ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کر رکھی ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر کو اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے محمد احمد رضا قادری کو ڈپٹی اپوزیشن لیڈر نامزد کیا ہے، سردار تنویر الیاس نے بھی سینئر وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔،،،،،،، نئے قائد ایوان کو پہلے خطاب کرنے کا موقع دینے پر رخصت ہونے والے قائد ایوان راجہ محمد فاروق حیدر نے متحدہ اپوزیشن کے ہمراہ اجلاس سے واک آؤٹ کیا، سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سپیکر اسمبلی نے مجھے پہلے بات کرنے کا موقع نہ دیکر جانبداری برتی، ہم الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اسمبلی کے اندر اور باہر بھی آواز اٹھائیں گے۔اپوزشن کی کیا حکمت عملی رہتی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ دیکھنا یہ ہے کہ نومنتخب وزیراعظم سردار عبدلقیوم نیازی اپنے ساتھیوں بیرسٹر سلطان محمود سمیت دیگر پارلیمانی پارٹی کو ساتھ رکھتے ہوئے آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی، گڈ گورننس، صاف شفاف احتساب اور آزاد خطہ کو تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کیلئے کیا عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں سپیشل نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں علماء ومشائخ کی نشست پر پی ٹی آئی کے محمد مظہر سعید، ٹیکنوکریٹ کی نشست پر محمد رفیق نئیر اور سمندر پار کشمیریوں کی نشست پر محمد اقبال کامیاب قرار دے دیئے گئے ہیں۔خواتین کی 5 مخصوص نشستوں پر امیدواران بلامقابلہ منتخب ہوگئی ہیں جن میں سے پی ٹی آئی کی 3 خواتین محترمہ امتیاز نسیم، محترمہ کوثر تقدیس گیلانی، محترمہ صبیحہ صدیق چوہدری، پاکستان پیپلز پارٹی کی نبیلہ ایوب ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ ن کی نثاراں عباسی بلا مقابلہ کامیاب قرار پائی ہیں۔ پی ٹی آئی کو تین، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست ملی، 53 رکنی ایوان میں حکومت سازی کے لیے27 ووٹ درکار ہیں، تین مزید نشستوں پر کامیابی کی بعد پی ٹی آئی نے 32 نشستوں کی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی 12 اور مسلم لیگ ن کی ایوان میں 7 نشستیں ہیں، جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے پاس ایک ایک نشست موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کی 12 میں سے 2 نشستیں چوہدری یاسین نے حاصل کی ہیں، چوہدری یاسین ایک نشست چھوڑیں گے جس پر ضمنی الیکشن ہوگا۔
اس بار وزیر اعظم کے امیدوار کی نامزدگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے اس دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ ان پر اپنی ہی پارٹی کے امیدواران کا الزام ہے۔ حلقہ ایل اے 7 بھمبر، ایل 6 سماہنی اور ایل اے 2 چکسواری کے امیدوار نے ان پر مخالف امیدواران کی مبینہ حمایت اور ووٹ دلانے کے الزام عائد کیے، جس کی رپورٹ چیئرمین پارٹی وزیر اعظم عمران خان کو بھی پیش کی گئی۔ نومنتخب سپیکر اسمبلی چوہدری انوار الحق قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپیکر کا منصب ہی اس شرط پر قبول کیا تھا کہ بیرسٹر سلطان محمود وزیر اعظم نامزد نہیں کیے جائیں گے۔ چنانچہ نومنتخب سپیکر اسمبلی چوہدری انوار الحق اور سابق ممبر کشمیر کونسل بابر علی ذوالقرنین کی جانب سے مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری طارق فاروق کی حمایت کے الزام نے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے دور کر دیا۔ دوسری جانب آزاد کشمیر کے انتخابات میں وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور جو الیکشن مہم کے چیئرمین بھی تھے ان کی بہترین حکمت عملی نے پی ٹی آئی میں حکومت بنانے کی راہ ہموارکی اور یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں 14ویں ترمیم لانے کے متعلق سوچ بچار کر رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن اس ترمیم پر کیا مؤقف اپناتی ہے، پی ٹی آئی حکومت مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار حسن ابراہیم کو بھی اپنے ساتھ رکھے گی۔ سردار حسن ابراہیم نے اپنا ووٹ بھی وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کو دیا۔ جبکہ سردار عتیق احمد کے متعلق بھی اطلاعات ہیں کہ انہوں نے بھی وزیر اعظم کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی اپنی مدر پارٹی سے مشاورت میں ہیں۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کا دور صدارت بھی تکمیل کے قریب تر ہے صدر آزاد کشمیر کے متعلق اطلاعات ہیں کہ کچھ حلقوں کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی حکومت انہیں برقرار رکھے، پی ٹی آئی کے اندر کچھ حلقوں کی سوچ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی صدارت کا منصب بیرسٹر سلطان کو دیا جائے جبکہ بعض سنجیدہ حلقوں میں لیفٹینٹ جنرل (ر) شیر افگن خان کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے کچھ اراکین کی خواہش ہے کہ سینئر سیاستدان خواجہ فاروق احمد کو صدارت
کیلئے نامزد کیا جائے۔اس صور حال میں صدر آزاد کشمیر کا حتمی فیصلہ بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہی کو کرنا ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کسے اس اہم منصب کیلئے سامنے لاتے ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛