جامعہ زرعیہ کے ماہرین زراعت نے بتایاکہ پاکستان میں زرعی ادویات کا 93.34فیصد حصہ کیڑے مارنے کیلئے استعمال ہوتاہے جبکہ فصلات کی چھپی دشمن جڑی بوٹیوں کی تلفی کیلئے صرف3 4فیصد ادویات استعمال کی جاتی ہے جبکہ دنیا میں جڑی بوٹی مار ادویات کی فروخت کا تناسب 45.3فیصد تک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جڑی بوٹیاں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ خطر ناک ہیں جو فصلوں سے خوراک، پانی، روشنی چھین کر ان کی پیداواری صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ دنیا بھر میں زرعی ادویات کی فروخت میں جڑی بوٹی مار ادویات کی فروخت کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 45.3فیصد تک ہے جبکہ کیڑے مار ادویات 28.8، پھپھوندی کش ادویات 20.9اور دیگر ادویات 6.1فیصد کے تناسب سے استعمال کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ یہاں پر کیڑے مار ادویات 93.3فیصد، جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات4.3فیصد اور پھپھوندی کش ادویات 2.3فیصد کے تناسب سے استعمال کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چارہ جات کی فصلوں میں جڑی بوٹیوں کے موجود ہونے کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ تقریبا ہر قسم کی جڑی بوٹی بطور چارہ استعمال ہو جاتی ہیں لیکن دیگرفصلات پر جڑی بوٹیاں بہت زیادہ منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ انہوں نے کاشتکاروں سے اپیل کی کہ وہ ماہرین زراعت اور محکمہ زراعت کے فیلڈ سٹاف کی مشاورت سے جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلئے بھی ضروری اقدامات یقینی بنائیں۔