لاہور سے بھی سکردو جہاز جاتے ہیں، اور اسلام آباد سے روزانہ پروازیں جاتی ہیں۔ گلگت بلتستان رفاہی خدمات کے سبب ہمارا مستقل مسکن بن چکا ہے۔حالیہ وزٹ میں سکردو سے دیوسائی کے راستے گلگت تک کا سفر انتہائی سحر انگیز رہا۔ دیو سائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500فٹ بلند ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گزرتے۔ یہی برف جب پگھلتی ہے تو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5 فیصد حصہ ہوتی ہے۔ دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ سکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ سکردو سے دیوسائی 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاو¿ں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ صد پارہ جھیل کا رین بو رنگ کا پانی اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
اسلا م آباد سے جہاز محض 40 منٹ میں سکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے سکردو جانا پسند کرتے ہیں۔ یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلو میٹر طویل شاہراہ قراقرم پر راولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ سکردو سے جا ملتا ہے۔ یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودھائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلو میٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200 میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔
تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گزرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں۔ ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں، اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور ڈھلوان کے بعد برف پوش چوٹیاں۔
اس خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت شہری سیاح منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہے۔ یہ منظر اس کے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ یہ بہترین کیمپ سائٹ بھی ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا ہے، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے۔ یہ دیوسائی کی واحد جھیل شیوسرہے۔ 12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ایک ہے۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ اس میں پانی نہ کہیں سے داخل ہوتا ہے نہ خارج، اس لیے مقامی لوگ اسے اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراو¿ٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائٹ ہے۔ سکردو کے باسی چھٹی والے دن بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراو¿ٹ صاف نظر آتے ہیں اورخوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔دیو سائی میں بڑا پانی ہے جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔ یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔سلسلہ کوہِ ہمالیہ دنیا کا عظیم ترین پہاڑی سلسلہ ہے جو 6 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل چین، نیپال، میانمار، افغانستان اور بھارت سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہے۔ ایورسٹ اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔
یہ عظیم پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان جانے والے خواہ گلگت کے رستے جائیں یا سکردو سے ہوکر انھیں دیوسائی ضرور جانا چاہیے تاکہ وہ زندگی کے ایک حیرت انگیز تجربہ سے آشنا سکیں۔بلاشبہ گلگت بلتستان کی دیگر وادیاں بھی خوبصورت ہیں اور نوے فیصد سیاح گلگت پہنچنے کے بعد ہنزہ کی طرف نکلتے ہیں اور خنجراب پاس تک جا کر واپس آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے گلگت بلتستان میں سب کچھ دیکھ لیا حالانکہ اس طرح کے سفر میں چار پانچ دن میں وہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے باوجود دس فیصد علاقہ بھی پوری طرح نہیں دیکھ پاتے۔ ہم نانگا پربت کے دامن فیری میڈوز، ضلع استور میں واقع دیوسائی کے میدان عبور کر کے منی مرگ پہنچے۔دیو سائی سے ایک سڑک چلم چوکی سے ہوتی ہوئی برزل پاس اور منی مرگ کی راہ لیتی ہے۔
منی مرگ کو جنت نظیر کہہ دینے سے بھی اس کے حسن کا حق ادا نہیں ہوتا۔ بڑا پانی سے چلم پہنچنے میں ہمیں نسبتاً کم وقت لگا۔ یہاں سے ہم نے ایک اور حیرت انگیز جگہ منی مرگ جانا تھا۔ جو چلم سے پینتیس کلو میٹر کے فاصلے پر4200میٹر بلند درہ برزل کے اس پار واقع ایک ایسی وادی ہے جسے جنت نظیر کہنا شاید اس کی خوبصورتی کے لیے ایک خراج تحسین تو ہو سکتا ہے لیکن یہ لفظ اپنے اس مفہوم کا پورا احاطہ نہیں کر پاتا۔ جغرافیائی اعتبار سے سطح سمندر سے 13500فٹ بلند برزل پاس، سرینگر سے گلگت اور سکردو کے درمیان سفر کرنے کا مختصر ترین راستہ ہے جو صدیوںسے مقامی آبادیوں، یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے تاجروں اور خانہ بدوش چرواہوںکے استعمال میں رہا۔اس راستے پر لوگ پیدل ،خچروں، گدھوں اور گھوڑوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ برزل ٹاپ سے منی مرگ تک ساڑھے تین چار ہزار فٹ کی ڈھلان ہے۔فاصلہ کم ہونے کے باعث اس ڈھلان سے اترنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔درجنوں موڑ مڑنے پڑتے ہیں اور اٹھارہ کلو میٹر کے فاصلے کو انتہائی احتیاط سے طے کرنا پڑتا ہے۔منی مرگ ڈومیل رین بو جھیل الغرض استور کا تمام علاقہ سوئزر لینڈ کے حسن کو بھی مات کر دیتا ہے۔استور سے گلگت اور وادیِ ہنزہ بھی رب کی قدرت کا مظہر ہیں۔