پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل بڑھ رہی ہے ۔ایک طرف حکمران اتحاد تحریک انصاف پر سخت تنقید کرتے ہوئے پابندی کے حوالے سے آئینی آپشنز پر غور کر رہا ہے ۔دوسری طرف میاں صاحب نے واپسی کا اعلان کر دیا ہے ۔قانونی ماہرین اپنے طور پر فیصلے کی تشریح کر رہے ہیں ۔بعض کے مطابق مذکورہ فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوگا ،شوکاز نوٹس کے بعد فنڈز ضبط ہوسکتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے بھی ہیں جو اس فیصلے کو سیاسی اعتبار سے اہم نوعیت کا حامل سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں چونکہ بد عنوانی ثابت ہوگئی ہے اسلیے سخت فیصلے ہوسکتے ہیں ۔دروغ گوئی کی انتہا ہے کہ پہلے پی ٹی آئی قیادت کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اکائونٹ میں پیسے کیسے آئے اور اب ممنوعہ فنڈنگ کو حلال فنڈنگ ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق کہا جا رہا ہے کہ سبھی جماعتوں کو فارن فنڈنگ ہوئی ہے اگر ان کے خلاف بھی کوئی الیکشن کمیشن جائے تو ایسے فیصلے آسکتے ہیں۔ اسی اعترافی بیان نے پی ٹی آئی ووٹرو سپوٹرز کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو ۔۔حسب طاقت ہر کوئی فرعون ہے ‘‘اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ جتنی مرضی دلیلیں دے لیں بالآخر دیکھا جائے گا کہ قانون کیا کہتا ہے اور 1962 ء میں پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ سے روک دیا گیا اور الیکشن ایکٹ 2017 ء میں بھی اس قانون کو برقرار رکھا گیاتھا جس کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلا واسطہ حاصل ہونے والے فنڈ ز جو کسی غیر ملکی حکومت ،ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں اور ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو چکی ہے ۔گو کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے پارٹی پر پابندی کے امکانات کم ہیں مگریہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے کہ خان صاحب عوام کا جم غفیر اکٹھا کریں گے اور الیکشن کمیشن اور مخالفین کے خلاف نعرے لگوا کر انھیں بد عنوانی کا سرٹیفکیٹ دیکر سب سلجھا لیں گے ۔یہ قانونی معاملہ ہے جسے سڑکوں پر نہیں عدالت میں سلجھانا ہوگا لیکن فیصلہ جو بھی ہو عمران خان صادق و امین نہیں رہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں اب تبدیلی لانے ،ریاست مدینہ بنانے اور امپورٹڈ حکومت نا منظور جیسا کوئی وعدہ یا دعوی کرتے دکھائی نہیں دے رہے ۔ غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں 9 حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے،یہ نشستیں تحریک انصاف ہی کی چھو ڑی ہوئی ہیں۔یقیناوہ مضبوط امیدوار ہونگے لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کیااب ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں یا کسی دوسرے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ؟ خان صاحب نے کرسی کے لیے پورے ملک کو کھیل کا میدان بنا رکھا ہے اور اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ ہسپتال اور یونیورسٹی سمیت سبھی کاروبار بیرونی رقوم سے چل رہے ہیں تبھی ممنوعہ فنڈنگ کیس بھی قریبی دوست اور مرکزی رہنما نے کیا تھا ۔انھی دو عملیوں کیوجہ سے سبھی نظریاتی رہنما اور کارکن ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔موروثی سیاست کے خاتمے کادعوی بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے اور بیٹی کو ٹکٹ دیکردفنا دیا اور اب خیبر پختونخواہ کے محکمہ صحت کے لیے امریکہ نے 36 گاڑیوں کی امداد دی ہے لیکن سوشل میڈیا پر امپورٹڈ حکومت نا منظور کا ڈھول بجوا رہے ہیں اور اپنے روایتی غیر پارلیمانی انداز کے ساتھ سبھی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ڈٹ کر کہہ رہے ہیں کہ ’’تھوڑی سی جو پی لی ہے چوری تو نہیں کی ہے ‘‘۔
یقینا دیگر جماعتوں کے بارے بھی شفاف تحقیقات ہوں تو کوئی پیچھے نہیں رہے گا ۔اسلیے پانامہ لیکس ہوں ،ڈان لیکس ہوں یا کہ ممنوعہ فنڈنگ کڑا احتساب ہونا چاہیے اور سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا واحد حل بھی یہی ہے کہ سیاسی کیسسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے ۔درحقیقت حکمرانوں کی دو عملیوں نے عوام الناس کو بھی بھٹکا رکھا ہے کہ ایمان پر موت چاہنے والے زندگی ایمان پرگزارنا نہیں چاہتے ۔کہتے ہیں کہ ایک امام صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا امام صاحب دعا فرما دیں کہ ملک کے معاشی حالات ٹھیک ہو جائیں ۔امام صاحب نے جیب سے 5000 کا نوٹ نکال کر سب کو دکھایا اور کہا کہ یہ مجھے گرا ہوا ملا ہے اگر کسی کا ہو تو بتا دے ۔یہ سننا تھا کہ دس سے بارہ بندوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ۔امام صاحب نوٹ واپس جیب میں ڈالتے ہوئے بولے کہ یہ میرا ہی ہے جو میری بیوی نے آج مجھے سودا سلف لانے کے لیے دیا تھا ۔پہلے اپنی حرکتیں ٹھیک کریں ملک کے معاشی حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ اگر واقعی وطن عزیز کو خود مختار اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو مجمع بازوں اورطالع آزمائوں کو کھیل کے مزید میدان فراہم کرنا بند کر دیںاور جان لیں کہ محض آرزوئوں سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی اور امداد وبھیک پر پلنے والے تبدیلی کبھی نہیں لا سکتے ہیں ؟
لطیفہ خود کو سنا رہا ہوں تو میری مرضی
اچھے دنوں کے انتظار میں ہماری ساری زندگی گزر جاتی ہے اور پھر پتہ چلتا ہے کہ جو دن گزر گئے وہی اچھے تھے کیونکہ اس وقت جس کسی کو بھی دیکھو وہی پریشان نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک شاید اس کی وجہ روزانہ کی بگڑتی ہوئی ملکی سیاسی صورتحال ہے جس کے باعث تقریبا ًہر دوسرا شخص پریشانی کے عالم میں پایا جاتا ہے ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے دل کرتا ہے کہ کالم کا آغاز ایسے لطیفوں اور اقوال زریں سے کیا جائے جو آج کی ملکی سیاسی صورت حال سے گہری مطابقت رکھتے ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ قارئین کو آج کا یہ کالم پسند آئے گا۔ درج ذیل لطیفہ بڑا دلچسپ ہے۔
ایک چوہا بہت تیز دوڑ رہا تھا کہ ہاتھی نے پوچھا کیوں دوڑ رہے ہو چوہے نے کہا کہ حکومت کی طرف سے گائے کو پکڑنے والے آرہے ہیں ہاتھی نے کہا لیکن تم تو گائے نہیں ہو یہاں پر چوہے کا جواب سننے والا ہے بھائی یہ پاکستان ہے یہ ثابت کرنے میں دس پندرہ سال لگ جائیں گے کہ میں گائے نہیں ہوں بس پھر کیا ہوا کہ ہاتھی اس سے بھی زیادہ تیز دوڑنے لگا۔
ایک مچھر کہیں اڑ کر جارہا تھا کہ راستے میں زور کا طوفان آگیا مچھر ایک موٹے درخت سے لپٹ گیا طوفان تھم جانے کے بعد مچھر اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا جے آج ‘‘میں نہ ہوندا تے درخت تے اڈ ای جانا سی ’’۔بہت سارے لوگ مچھر کی طرح گھمنڈ کرنے والے ہمارے اردگرد میں ہی رہتے ہیںاور تو اور اب تو گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مرغا بھی ہانڈی سے باہر نکل کر کہتا ہے۔۔ بہن جی اگر گیس نہیں تھی تو میری وردی کیوں اتاری تھی۔
اب ہماری حالت کچھ اس طرح کی ہوگئی ہے بقول شاعر
کھڑے کھڑے مسکرارہا ہوں تو میری مرضی
لطیفہ خود کو سْنارہا ہوں تو میری مرضی
میں جلد بازی میں کوٹ اْلٹا پہن کے نکلا
اب آرہا ہوں کہ جارہا ہوں تو میری مرضی
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس کے متعلق کسی نے سعادت حسن منٹو سے پوچھا کیا حال ہے آپ کے ملک کا۔؟ کہنے لگے بالکل ویسا ہی ہے جیسا جیل میں ہونے والی جمعہ کی نماز کا ہوتا ہے اذان فراڈیا دیتا ہے امامت قاتل کراتا ہے اور نمازی سب کے سب چور ہوتے ہیں۔ نئی نئی بلندیوں کو ضرور چھوئیں لیکن ایسی اونچائیوں سے بچیں جہاں سے دوسرے لوگ چھوٹے نظر آئیں. اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ زندگی کی خوبصورتی بس اسی میں ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کے ارد گرد میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی رہے۔ اس اقوال زریں میں ایک ولی کامل نے بہت ہی خوبصورت میسج ہم سب کے لیے چھوڑا ہے کہ بس اس بات کا دھیان رکھنا کوئی اللہ سے تمہاری شکایت نہ کردے۔
آپ ذرا غور کریں کہ یہ وطن عزیز پاکستان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت عظمی ہے جس کے حصول کیلئے انسان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ اس ریاست کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آبائو اجداد نے شہادتیں دیں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہمیں تو یہ ملک وراثت میں مل گیا کوئی قربانی نہیں دینا پڑی یاد رہے پاکستان وہ وطن عزیز ہے جو اس کے بنانے والوں کو خیرات میں نہیں ملا بلکہ پاکستان کی بنیادیں کھڑی کرنے کیلئے ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ ، گوشت گارے کی جگہ خون پانی کی جگہ استعمال ہواہے۔ پاکستان کی آزادی اور اس کو بنانے والوں نے اتنی گراں قدر اور بیش قیمت قربانیاں دی ہیں جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔