عوام کا سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونا ضروری ہے

تاریخ کے صفحات میںایک جملہ محفوظ ہے’’اگر روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھائو‘‘۔ہائے !حکمرانوں کی اسی بے خبری نے انقلاب فرانس کی بنیاد رکھ دی تھی جبکہ دوسری طرف طاقت کے نشے میں سرشار ایٹمی قوت کا ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ اور اس حملے کی ہولناکیاں جلی سڑی لاشوں،پگھلے جھلسے بدن اورٹوٹے بکھرے اعضاء کی صورت میں دنیا کی نظروں کے سامنے آگئیں۔موجودہ دور کی کہانیوں میںفلسطین کے مظلوم بندے ،بوسنیا کے پناہ گزین،روہونگیا کے بے بس لوگ،فلسطین کے مسلمان،عراق کی تباہی، شام میں دراندازی،لیبیا کی خانہ جنگی،ا فغانستان کی بربادی ،کشمیر میں کرفیو اور ریاستی درندگی شامل ہیں غرضیکہ سستا ہے تو خون انسانی اور عام ہے کردار حیوانی۔مگر اتنے مظالم کے بعد بھی دنیا کو سنائے جاتے ہیں انسانیت کے بھاشن،اعلیٰ اخلاق کے عنوان،دھوکے کی باتیں، دکھلاوے کے بُول اور امدادی پیکج۔قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں’’سورج سر پر تھا مگر رات آگئی ‘‘دنیا بھول گئی کہ حکم ربیّ کیا ہے؟۔
لاالہ الاللہ کا پیغام کیا ہے؟خصوصاً مسلمانوں کو حال اور مستقبل کی کچھ خبرنہیں مگر اب تک شاندار اور تابناک ماضی کی یادگاریں ضرورقائم رکھی ہوئی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں رہتے ہوئے ماضی کی یادوں سے جی بہلا رہے ہیںمگر حقیقت میں یہ عمل غیر حقیقی ہے ایسا ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ ہم زندہ تو حال میں ہوں اور ترقی کو ماضی کی اکائیوں سے جوڑ لیں۔ اگر بد قسمتی سے ہم مسلمان ماضی اور حال کے فرق کو دور نہ کر پائے تو عین ممکن ہے کہ ہم حال اور ماضی کے درمیان معلق ہی رہ جائیں ۔ 
ہمارے سامنے دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں موجودہیںکہ جہاں بھٹکی ہوئی اور نشئی اقوام میں چندذی شعور افراد نے معاشرے میںزندگی کی نئی روح پھونک دی ۔اُن افراد کے جذبے اور لگن نے اس قوم کی ساری کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں اُن کے بڑوں نے اپنی نئی نسل کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کیں تاکہ وہ مستقبل میںترقی کی منزلیں بآسانی طے کرسکیں۔ اگر ہم تاریخ کے ورق پلٹتے جائیں توآگاہی ہوتی ہے کہ یہ سست ترین قوم اور نشئی لوگ تھے مگر دنیا کی اس موجودہ شکل کی موجد چینی قوم ہی ہے جس نے اپنی ان تھک محنت و تحقیق سے ثابت کیا کہ بُرے حالات کو کیسے اپنے دھارے میں لا کر سازگار کیا جاتا ہے ۔اس وقت چین دنیا کی ایک مضبوط معیشت بن چکا ہے۔ تُرکی ایک وقت میں یورپ کا مرد بیمار تھا مگر ایک فرد نے اس بیمار قوم میں نئی رُوح پھونک دی اورآج ترک لوگوں کواقوام عالم میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جاپان جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بیمار،لاغر اور معذوروں کا مُلک بن گیا تھاجب وہاں کے لوگوں نے خود کو بدلنے کا ارادہ کیا تو دنیا نے دیکھا کہ صرف چند سالوں میں ہی جاپان نے اتنی ترْقی کر لی جتنی وہ ماضی میں کبھی سُوچ بھی نہیں سکتا تھا۔جنگ عظیم کے بعدجرمنی ایک شکست خوردہ ملک اور جغرافیائی تقسیم کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے بعد صرف عوامی شعور کی بیداری کی مہم سے ایک بار پھر دنیا کی معیشت میں ایک مضبوط نام بن گیا ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور اب حالیہ سالوں میں افریقہ کے پسماندہ ملک روانڈا نے جنگوں کی تباہ کاریوں سے نکل کر اپنی تقدیر خود بنائی اور اپنا مستقبل خود سنوارا ۔
پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ آزادی کے ابتدائی چند سالوں میں ہی عظیم لوگ ہم سے جدا ہو گئے اور پھر مفاد پرست ٹولے نے اس نوزائیدہ ریاست کو گود لے لیا۔اس گروہ نے عمدہ منصوبہ بندی کے تحت قوم کو لسانی، علاقائی، سیاسی اورمذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا اور یوں اپنی سدا بہارحکمرانی کو یقینی بنا لیا ۔یہ طاقت ور گروہ ہمیشہ سے عوامی نمائندوں کے روپ میں کبھی ووٹ کی مدد سے اور کبھی بوٹ کی آشیرباد سے اقتدار کی مسند پر قابض رہا ہے مگر افسوس! آج مہنگائی کے طوفان،پٹرول کی بڑھتی قیمت،بجلی کے بلوں میں ہوشرباء اضافے،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، مسلسل بارشوں اور سیلاب کے سبب ہزاروں خاندان بے یارومددگار پڑے ہیں،مائوں کی گود میں بچے نڈھال پڑے ہیں، کھانے کو روٹی نہ دو گھونٹ صاف پانی میسر ہے ،تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں جبکہ دوسری طرف ملک کی ساری سیاسی قیادت اقتدار کو طوالت دینے اور اپنا حصہ بڑھانے کے چکر میںمصروف ہے اُن کی ترجیحات میں ملک کی سلامتی و قوم کی بہتری شاید آخری نمبروں میں ہیں جبکہ بے چارے عوام بے بسی سے اس سیاسی دھینگا مشتی کو دیکھتے ہوئے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں ۔اس موقع پر قوم کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نظر آتی ہے۔ چنانچہ سب سیاسی قوتوں اورمفاداتی گروہوں کو جان لینا چاہیے کہ عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنا ہر جمہوری حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے۔
 چنانچہ اس فرض کو قرض سمجھ کر کرنے میں ہی ان کی بھلائی ہے کیونکہ ابھی بھی وقت ہے کہ عوام کو سہولت دیں ،سرکاری اخراجات کو کم کریں، سرکاری افسران کے اخراجات کو محدود کریں، منتخب نمائندگان کی تنخواہیں اور مراعات بند کریں ورنہ عوام کے غیض و غضب کے لیے تیار رہیں ۔ اسی طرح عوام کو بھی سمجھنا ہوگا کہ مسند اقتدار پر کاغذی پیرہن پہنے بیٹھے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کی بجائے اپنی تقدیر خود لکھیں کیونکہ اس بارنیا پاکستان عوام کو بنانا ہے پوری قوم کو قدم بڑھانا ہے،ماضی کاقرض اُتارنا ہے اور اپنا فرض چُکانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن