خبر ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی سوشل میڈیا پر اپنا ٹک ٹاک اکائونٹ بنا لیا۔
یہ تو بڑی ہی اچھی بات ہے‘ سرکاری ٹک ٹاک سے کم از کم سیاسی درجہ حرارت میں تو کمی دیکھنے میں آئیگی جس کی وجہ سے اس وقت ملک بھر میں اودھم اور افراتفری کا پارہ چڑھا ہواہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ سرکاری ٹک ٹاکرز عوام میں کتنی مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ بات تو تب ہے جب اس اکائونٹ کو سیاست دان آپس کی چپقلش سے آزاد ہو کر عوام کیلئے دلچسپی کا سامان پیدا کریں۔ اگر یہی گند اس قوم کو سرکاری ٹک ٹاک اکائونٹ پر بھی دیکھنے کو ملے گا تو پھر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا ہی کافی ہیں۔ بادی النظر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ سرکاری ٹک ٹاک زیادہ تر اپوزیشن کیخلاف ہی بنائے جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اب اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنا ایک ٹک ٹاک اکائونٹ بنا لینا چاہیے۔ پھر خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو کے مصداق قوم کو گھر بیٹھے اچھا خاصا انٹرٹینمنٹ چینل مل جائیگا اور عوام اخبارات اور ٹی وی چینلز کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر حکومت اور اپوزیشن کے ٹک ٹاک دیکھ کر ہی باخبر ہوا کریں گے اور محظوظ بھی۔ سب سے زیادہ مقبولیت خواتین ٹک ٹاکرز حاصل کریں گی‘ انکی ویڈیوز میں طنز و مزاح کے علاوہ اشتعال انگیزی بھی قوم کو دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ قارئین خوش نہ ہوں‘ یہ سب ہماری خام خیالی ہے کہ شاید سرکاری ٹک ٹاک اکائونٹ سے قوم کو ایسا کچھ دیکھنے کو ملے گا‘ ممکن ہے سرکاری ٹک ٹاکرز سوشل میڈیا پر اپنا ایسا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہر کوئی کہہ اٹھے ’’آگیا تے چھا گیا ٹھاہ کرکے‘‘۔ بہرحال سرکاری ٹک ٹاکرز سے صرف ایک گزارش ضرور ہے کہ ٹک ٹاک بناتے وقت ملک و قوم کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ پہلے ہی وطن عزیز کی دنیا بھر میں بہت جگ ہنسائی ہو رہی ہے‘ مزید اہتمام کرکے اس قوم کا سر شرم سے مزید نہ جھکایا جائے۔
٭…٭…٭
بروقت طبی سہولیات نہ ملنے کا شکوہ مریض کے لواحقین کا جرم بن گیا۔ ڈاکٹروں نے مریض کو ہی پیٹ ڈالا۔
یہ تو اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ نظر آتا ہے۔ اکثر دیکھنے اور سننے میں یہی آیا ہے کہ ڈاکٹروں کے غیرسنجیدہ رویے یا غفلت کے باعث مریض کے لواحقین نے اشتعال میں آکر ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی اور ڈاکٹروں کو زدوکوب کیا جبکہ اس واقعہ میں ڈاکٹروں کا بس لواحقین پر تو نہ چل سکا البتہ انہوں نے ہمت کرکے اپنے زیرعلاج مریض کو ہی پیٹ ڈالا۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں یہ شکایات سامنے آتی ہیں کہ انتظامیہ یا ڈاکٹروں کی جانب سے غفلت برتی جاتی ہے جس سے لواحقین کو ہنگامہ آرائی کا موقع ملتا ہے۔ مسیحائوں کی جانب سے غیرسنجیدہ رویہ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ بے چارے لواحقین اپنے مریض کی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہوتے ہیں‘پیسہ نہ ہونے کی صورت میں ہی وہ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیںتاکہ انکی پریشانی کا ازالہ ہو سکے۔ ہسپتالوں میں اپنے مسیحائوں کے غیرسنجیدہ رویوں سے نالاں ہو کر ہی بعض لواحقین انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر انکے ساتھ پیار و محبت والا اچھا برتائو کیا جائے تو ڈاکٹروں اور لواحقین کے مابین ہنگامہ آرائی کی نوبت ہی نہ آئے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری تو مسیحائوں پر عائد ہوتی ہے جو انکے پیشے کا تقاضا بھی ہے کہ وہ دکھیارے مریض اور انکے لواحقین سے حسن سلوک سے پیش آئیں تاکہ آدھا دکھ درد ان کا ڈاکٹر کے اچھے رویے سے ہی کم ہو جائے۔ اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ڈاکٹر کا اچھا رویہ نفسیاتی طور پر مریض کی آدھی بیماری کو ختم کر دیتا ہے۔ اگر مسیحا ہی اپنے مریضوں پر لٹھ لے دوڑیں گے تو اس بیمار کے زخموں پر مرہم کون رکھے گا جومیلوں کا سفر طے کرکے اس امید پر اپنے مسیحا کے پاس پہنچتا ہے کہ وہ اسے اس تکلیف سے نجات دلائے گا۔ اس لئے ڈاکٹر حضرات کی اولین ذمہ داری حسن سلوک ہونی چاہیے جبکہ لواحقین کو بھی تحمل و برداشت سے کام لینا چاہیے تاکہ دونوں جانب سے انسانیت کا احترام ہو سکے۔ کیونکہ سب سے اہم انسانیت ہی ہے جس کا درس ہمارا دین بھی دیتا ہے۔ مگر افسوس! انسانیت تو اب اس دنیا میں ناپید ہوتی جارہی ہے جو اس کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے۔
٭…٭…٭
سرکاری و نجی سکولوں کے بچوں میں ڈینگی وبا پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر محکمہ تعلیم نے سکولوں میں ڈینگی سے بچائو کیلئے زیرو پیریڈ کا انعقاد لازمی قرار دے دیا۔
محکمہ تعلیم کا یہ انتہائی صائب فیصلہ ہے‘ ویسے تو یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا‘ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق اگر اب بھی بچوں میں ایک پیریڈ کے انعقاد سے شعور بیدار ہوجاتا ہے تو امید ہے کہ مستقبل میں اسکے بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔ باشعور اور ترقی یافتہ قوموں کا یہی اسلوب ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں زندگی گزارنے کا ڈھب سیکھیں تاکہ ایسی وبائوں سے محفوظ رہ سکیں۔ جو قومیں بے شعوری اور لاعلمی کی زندگی گزارتی ہیں‘ ان کیلئے معمولی وبا بھی وبال ِ جان بن جاتی ہے اور وہ معاشرہ جنگل کا معاشرہ تصور کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ جیسے ہی اس موذی وبا نے اپنے خونی پنجے تیزی سے گاڑنا شروع کئے‘ اس سے بچائو کی تدابیر سامنے آگئیں جن پر سختی سے عمل درآمد کرکے اس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ گو کہ شروع میں اموات بہت زیادہ ہوئیں جو یقیناً غفلت اور اسکے بچائو کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے پیش نظر ہی سامنے آئیں لیکن جیسے جیسے لوگوں میں شعور بیدار ہوا‘ ایس او پیز پر عملدرآمد کرکے اور لاک ڈائون کی حکمت عملی اپنا کر الحمدللہ‘ اس موذی وائرس پر کافی حد تک قابو پالیا گیا لیکن اس وقت بھی دنیا کے کئی ممالک کو اسکے بے رحم پنجوں نے جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اسکی چھٹی لہر تیزی سے پھیل رہی ہے جو ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کی متقاضی ہے۔ ڈینگی بھی ایک جان لیوا وائرس ہے جو ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔سکولوں میں اس سے بچائو کیلئے زیرو پیریڈ کا اہتمام کرنا انتہائی خوش آئند ہے۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے ہر پندرہ روز بعد سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں میں ایک مستند ڈاکٹر لیکچر کا انعقاد اس پیریڈ کے دوران کرالیا جائے جو بچوں کو ڈینگی سے بچائو کے علاوہ اسکے مابعد بداثرات کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کرے تو اس سے قوم کو مزید فائدہ ہوگا۔ باشعور قوموں کا یہی چلن انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔
٭…٭…٭