محاورات، روزمرہ، تلمیحات اور ضرب الامثال کو زبان کے زیور کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے سادہ سی بات کا بیان نہ صرف خوبصورت اور سحرانگیز ہو جاتا ہے بلکہ بسااوقات کلام کی بلاغت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ عہدِ حاضر میں اردو کی مناسب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے سبب عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص زبان کے بہت سے ضروری پہلوؤں سے ویسی واقفیت نہیں رکھتے جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ محاورے، روزمرہ، تلمیح اور ضرب المثل کا تصور اکثریت کے ذہنوں میں پوری طرح واضح نہیں اور انھیں باہم دگر متبادل سمجھنے اور اسی طرح برتنے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہیکوئی فقرہ، جملہ، شعر یا مصرع جو زندگی کے بارے میں کسی خاص اصول، حقیقت یا رویے کو جامع اور بلیغ طور پر بیان کرے اور عوام و خواص اسے ترجمانی کے لیے استعمال کرنے لگیں، کہاوت کہلاتا ہے۔ اسی کو عربی میں ضرب المثل کہا جاتا ہے۔ کہاوتیں یا ضرب الامثال کسی معاشرے کے مخصوص تمدن اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں اور عام طور پر نہایت دانشمندانہ اور حکیمانہ نکات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ کسی قوم کی ضرب الامثال سے اس کے رویوں، لوک دانش اور رہن سہن کے بارے میں خاصی معلومات اخذ کی جا سکتی ہیں۔عہدِ موجود کے سماجی رویوں سے پھوٹنے والے اقوال جب حقیقی معاشرتی نمائندگی کا روپ دھار کر قبولِ عام کی سند کے ساتھ دہائیوں کی ارتقائی مسافت طے کریں گے تو وہ بھی لگے بندھے الفاظ کا جامہ پہن کر کہاوت کا درجہ حاصل کر کے زبان کا اثاثہ بن جائیں گے۔مثلاً " محبت اور نفرت دونوں ایسے جذبے ہیں جو انسان کو " سچ " بولنے، لکھنے،سوچنے اور سننے سے روکتے ہیں " قبل ازیں یہ بات رائج تھی کہ سوانح نگار کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوتا ہے کہ اسے اپنی پسند ، نا پسند اور محبت کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہ کام اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ سوانح حیات، انسان اپنی لکھتا ہے یا اپنے کسی دوست کی اور اپنی یا اپنے دوست کی خوبیاں تو نظر آ سکتی ہیں مگر خامیاں نظر آتی ہیں نہ لکھی جاتی ہیں۔
اب جب کہ اینکر پرسن ہوں یا تجزیہ کار، تجزیہ نگار ہوں یا فیصلہ نگار وہ سب محبت اور نفرت کے جذبات سے مغلوب دکھائی، سنائی اور پڑھائی دیتے ہیں ۔جس طرح غصہ اندھا اور بے وقوف نہیں ہوتا ، غصے کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور عقل بھی، غصہ مدِ مقابل کو دیکھ داکھ اور سوچ سمجھ کر آتا ہے۔ اِسی طرح محبت اور نفرت ہمیشہ اندھی نہیں ہوتیں، ان کی بھی عقل اور آنکھیں ہوتی ہیں اور بسا اوقات تو آنکھوں پر مخصوص عینکیں بھی ہوتی ہیں جن کے پار قوسِ قزح کی سَت رَنگی کمان میں سے صرف مَن پسند رَنگ ہی نظر آتے ہیں۔ مْنصف ہوں یا مْصنف ، جب وہ اپنی سوچ اور اَپروچ کو قلم کی نوک پر لاتے ہیں تو بعض اوقات انصاف اور غیر جانبداریت کا سر قلم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح غصہ، محبت اور نفرت کی آنکھیں ہوتی ہیں اسی طرح قانون اندھا ہوتا ہے نہ قلم ، وہ بھی دیکھتے ہیں کہ سامنے کون ہے ۔ اِستثناء تو بہرحال ایک حقیقت ہے لیکن اکثریت پر استدلال کیا جانا ہوتا ہے۔
اگر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پچیس ارکان اپنے پارٹی قائد عمران خان کی حکم عدولی کی پاداش میں ڈی سیٹ ہو سکتے ہیں تو ق لیگ کے دس ارکان کیوں نہیں۔ مانا کہ پی ٹی آئی کے پچیس ارکان کے معاملے میں پارلیمانی لیڈر اور پارٹی لیڈر ایک پیج پر تھے جبکہ ق لیگ کے معاملے میں پارٹی لیڈر اور پارلیمانی لیڈر دو مختلف صفحات پر تھے اور یہ بھی کہ ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر اپنی پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کے حق میں تھے جبکہ پارٹی لیڈر چودھری شجاعت حسین کسی دوسری پارٹی یعنی ن لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حکم دے رہے تھے۔جبکہ وزیر اعلٰی پنجاب کے ہر دو انتخابات میں عمران خان بھی تو اپنی پارٹی پی ٹی آئی کی بجائے کسی اور پارٹی یعنی ق لیگ کے امیدوار ، پنجاب کے سب سے بڑے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا حکم صادر کر رہے تھے۔
اب یہاں پانچ سوال جنم لیتے ہیں۔
1: اگر پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے حق میں فیصلہ کرتے اور پارٹی لیڈر چودھری شجاعت حسین کا فیصلہ چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ہوتا تو پھر کس کے فیصلے کو فضیلت حاصل ہوتی؟2: پی ٹی آئی کے پچیس ارکانِ پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے میں کیا یہ اصول لکھ دیا گیا تھا کہ اختلافِ رائے کی صورت میں پارٹی لیڈر کا فیصلہ مْقدم ہو گا یا پارلیمانی لیڈر کا ؟ 3: اگر ق لیگ کے دس میں سے پانچ ارکانِ پنجاب اسمبلی پارٹی لیڈر چودھری شجاعت حسین کی بات مانتے اور پانچ ارکان پارلیمانی لیڈر چودھری ساجد بھٹی کا حکم مانتے تو پھر کون سے پانچ ارکان ڈی سیٹ ہوتے؟4: اگر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کا پارلیمانی لیڈر بھی اپنے پچیس منحرف ارکان کا ہمنوا ہو کر ، پارٹی لیڈر عمران خان کی حکم عدولی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو خود بھی ووٹ دے دیتا اور پوری پارلیمانی پارٹی کو بھی حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا حکم دیتا تو اس صورت میں پارلیمانی لیڈر کا عمل اور حکم افضل قرار پاتا یا پارٹی لیڈر عمران خان کا ؟ اور اگر پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر کا حکم افضل ٹھہرتا تو پھر کیا ان پچیس ارکان کی بجائے پی ٹی آئی کے باقی سارے ارکان جنہوں نے پارلیمانی لیڈر کی حکم عدولی کی ہوتی اور پارٹی لیڈر کی بات مانی ہوتی وہ ڈی سیٹ ہو جاتے؟5 مستقبل قریب میں اگر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ، حمزہ شہباز سے کہیں کہ " قدم بڑھاو حمزہ ہم تمہارے ساتھ ہیں "۔
اور حمزہ شہباز وزیر اعلٰی چودھری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کا پارلیمانی لیڈر دس ایم پی ایز کے ہمراہ ، عمران خان کی مرضی کے برعکس پرویز الٰہی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا ساتھ دے دیتا ہے تو کیا وہ دس ایم پی اے بمعہ اپنے پارلیمانی لیڈر کے ڈی سیٹ ہو جائیں گے؟اپوزیشن ارکان کو تو پہلے روز سے ہی حکومت پر اعتماد نہیں ہوتا ۔عدم اعتماد کا مطلب ہی یہ ہے کہ جن کو حکومت پر پہلے اعتماد تھا مگر اب انہیں اعتماد نہیں رہا اور اگر حکومتی ارکان کو عدم اعتماد نہ ہو یا وہ عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ نہ دیں یا دیں تو ڈی سیٹ ہو جائیں تو پھر تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا تو ناممکنات میں سے ہے۔اِس طرح تو جس پارٹی کی حکومت ایک دفعہ بن جائے اسے پانچ سال سے قبل ہٹانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی خواہ اس کی کارکردگی کتنی ہی مایوس کْن کیوں نہ ہو بشرطیکہ وہ حکومتی پارلیمانی پارٹی، اسمبلی میں کم از کم ایک ووٹ کی اکثریت رکھتی ہو