تم پھر آ گئے، تمہارے پاس کوئی اور کام نہیں، کس نے بلایا ہے؟ جج صاحب نے مجھے دیکھتے ہی تابڑتوڑ حملے شروع کر دیئے اور غصے میں آگئے۔ میں پہلے تو سٹپٹایا کہ کیا جواب دوں۔ میزبان مہمان سے پوچھ رہا ہے کہ کیوں آئے ہو؟ پھر ہمت کرتے ہوئے عرض کیا، ''سر آپ کی طرف سے بلاوا آیا تھا'' اور دل میں کہا، ''یہاں کون آنا چاہتا ہے''. جج صاحب نے اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھا اور سٹاف کو حکم دیا یہ مصروف آدمی ہے، خواہ مخواہ نہ بلایا کرو۔ اور یوں اس دن کے بعد میری عدالتی پیشیوں سے تقریباََ جان چھوٹ گئی۔ ورنہ شہر میں کوئی چھینک بھی مارتا تو حکم آتا، ''آئی جی حاضر ہو'' بطور آئی جی اسلام آباد 20 ماہ کی مدت میں تقریبا 104 مرتبہ عدالت عظمٰی میں پیشی کا’’ شرف ‘‘حاصل ہوا۔ ایک دفعہ یہاں تک خیال آیا کہ کیوں نہیں یہاں اپنا کیمپ آفس بنا لوں لیکن پھر ڈر گیا کہ کہیں تجاوزات کے الزام میں نہ دھر لیا جاؤں۔ وکیل دوست مزاق اڑاتے کہ انہیں تو وہاں آنے کے پیسے ملتے ہیں، میں کیوں آتا ہوں؟ بحرحال پولیس کے حلقے میں کورٹ پیشی کے ماہر کی حیثیت سے پہچان بھی بن گئی۔ کورٹ کچہری کے چکر اوائل نوکری میں ہی شروع ہو گئے۔ عدالت سے حکم آیا کہ فلاں مقام سے قبضہ چھڑوایا جائے۔ بطور جونیئر افسر میری ڈیوٹی لگی کہ کارروائی کی ازخود نگرانی کروں۔ کورٹ کا ناظر بھی موقع پر پہنچ گیا۔ دوران آپریشن ہنگامہ ہوگیا۔ دھینگا مشتی میں مجھے بھی چوٹیں آئیں اور ہم وہ قبضہ نہ چھڑا سکے۔ نہ جانے کوٹ ناظر نے کیا لگائی بجھائی والی رپورٹ دی کہ جج صاحب ناراض ہو گئے اور مجھے بلا کر سخت سست کہا۔ میں حیران تھا کہ آخر مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی۔ اُدھر سے مار کھائی اور اِدھر سے ڈانٹ پڑی۔ مگر سلام ہے جج صاحب پر کہ انہوں نے تھوڑی دیر بعد اپنے چیمبر میں بلایا۔ چائے اور بسکٹ سے تواضع کی اور فرمایا کہ وہ کچھ زیادہ ہی غصے میں آ گئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں نمی مجھے آج تک یاد ہے اور میرے دل میں ان کی عزت ہمیشہ رہی۔اسلام آباد تعیناتی کے دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ہمارے وزیر موصوف کی عدالت عظمٰی پیشی کا حکم آ گیا۔ شام کو ان کا فون آیا کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے، آپ ڈی آئی جی صاحب کو بھی صبح بھیج دیں۔ پھر صبح سات بجے دوبارہ فون آیا کہ معاملہ نازک ہے آپ بھی آ جائیں۔ وزیر صاحب ایک لاؤ لشکر کے ساتھ تشریف لائے اور اپنے حواریوں اور میڈیا کے ساتھ چل رہے تھے۔ میں تھوڑے فاصلے پر پیچھے آرہا تھا۔ وہ اچانک رکے اور فرمایا آئی جی صاحب کہاں ہیں.؟میں فورا آگے بڑھا اور عرض کیا جناب بندہ حاضر ہے۔ انہوں نے پینترا بدلا اور فرمایا، آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ عرض کیا، ''جناب آپ نے یاد فرمایا تھا''۔ کہنے لگے، نہیں مجھے کوئی ضرورت نہیں، آپ چلے جائیں۔ وہ شاید اس طرح میڈیا کے سامنے تاثر دینا چاہتے تھے کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ یا پھراپنا بھرم مار رہے تھے۔جو سادہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پولیس والے بڑے طاقتور ہوتے ہیں اور وہ پیٹی بھائی جو کہ اس خوش فہمی کا شکار بھی ہیں، عدالتوں میں پیشی کے دوران ججز صاحبان کے ریمارکس سن لیں۔ ''یہاں سے دفتر نہیں سیدھے گھر جاؤ گے''، میں تمہیں جیل بھیج دوں گا''، اس قسم کے جملے میڈیا کے لئے چٹپٹی خبر، ملزمان کے لئے باعث راحت مگر ہمارے گھر والوں کے لئیے باعث شرمندگی اور پریشانی کا سبب بنتے رہے۔ اسلام آباد میں بطور ایس ایس پی فرائض انجام دیتے ہوئے ایک دفعہ عدالت سے بلاوا آیا. میں کسی وجہ سے نہ جا سکا، اس سنگین خلاف ورزی پر میرے خلاف وارنٹ نکل گئے۔ پنڈی میں تعیناتی کے دوران تو کمال ہی ہو گیا۔ میرا ایک ماتحت کسی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا۔ غلطی کسی اور کی تھی لیکن ناقابل ضمانت وارنٹ میرے جاری ہوگئے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدر ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب عدالت عظمٰی نے ازخود نوٹس لینا شروع کر دیا۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ اچھا قدم ہے لیکن جیسا کہ ہر چیز کی زیادتی غلط ہے، یہ طاقت بھی کہیں کہیں غلط استعمال ہوئی۔ مجھے تو لگتا تھا کہ ایک جج صاحب صبح سویرے اخبار میں مختلف خبروں پر نشان لگا کر دفتر آتے اور ازخود والی کاروائی شروع ہوجاتی۔ اور ہم ان ہی خبروں کو پڑھ کر بجائے اس کے کہ کوئی تدارک کی کاروائی کریں۔ از خود نوٹس کے جواب کی تیاریاں شروع کر دیتے۔ یہاں یہ بات بھی درست ہے کہ کوئی تو ادارہ ہو جو پولیس جیسے محکمہ کو لگام دے سکے۔ اگر عدالتوں کا ڈر نہ ہو تو ماورائے عدالت اقدامات کی بھرمار ہو جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں عدالتوں کا رویہ ان معاملات میں قدرے نرم دکھائی دے رہا ہے۔ کورٹ اور پولیس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پولیس تو عدالت کو مکمل معاونت فراہم کرتی ہے لیکن عدالتیں پولیس پر اپنا دست شفقت رکھنے سے نہ صرف گریزاں ہیں بلکہ ان کے ساتھ ملزم جیسا سلوک کرتی ہیں۔ اگر بھروسہ کا معیار بڑھا دیا جائے تو پھر دیکھیئے۔
''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''
ایک طرف اگر عدالتیں ہمارے اوپر شیر کی نگاہ رکھتی ہیں تو دوسری طرف انصاف کی بہتری اور پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے میں بہت سے تاریخی اقدام بھی کیئے۔ ایک ہی واقعے کی دو عدد ایف آئی آر کاٹنے پر پابندی لگائی۔ ہو یوں رہا تھا کہ ایک جھگڑا یا وقوعہ رونما ہوتا۔ زید جاکر بکر کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دیتا۔ جواباً بکر زید کے خلاف پرچے کی درخواست دے دیتا۔ اور یوں ایک ہی واقعے کی کئی ایف آئی آر زدرج ہو جاتیں۔ عدالتی حکم کے بعد اس مسئلے پر قابو پا لیا گیا۔ اس کے علاوہ آئوٹ آف ٹرن ترقیوں پر بھی پابندی لگا دی۔ ہو یہ رہا تھا کہ ایک انسپکٹر کو بڑے صاحب نے خوش ہو کر ڈی ایس پی لگا دیا، پھرایس پی اور کچھ عرصے کے بعد وہ ایس ایس پی کی کرسی پر براجمان نظر آیا. اس قسم کے اقدامات فوس کے مورال پر منفی اثر ڈال رہے تھے۔ اب ترقی صرف سنیارٹی کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ اس کے لیے ہمیں عدلیہ کا احسان مند ہونا چاہیے. اسی طرح Cadre تبدیل کرنے پر بھی پابندی لگی۔ سول سرونٹ اور نان سول سرونٹ کے فرق کو واضح کیا گیا۔ مختلف محکموں کے لوگ پولیس میں آتے اور پھر یہیں ضم ہو جاتے۔ اس غلط العام سلسلے کو سر پلس پول کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا. سینئر افسران کی مدت ملازمت اور خود مختاری کو استحکام حاصل ہوا. مگر افسوس کے باوجود عدالتی تعاون عملی طور پر ان فیصلوں سے ہم صحیح طرح فائدہ نہ اٹھا سکے۔ کوئی آئی جی نہیں کہہ سکتا کہ کب اس کی پوسٹنگ کی خبر ٹیلی ویژن پر نشر ہو جائے۔ کہتے ہیں انصاف اندھا ہوتا ہے۔ یہ شاید انگریزوں کی تشریح ہے۔ انصاف تو وہ ہے جو نظر آئے، ظالم کا ہاتھ روکے اور مظلوم کی مدد کرے۔ نہ کہ غلط اقدامات کو بھی نظریہِ ضرورت کے تحت درست کرے۔ کہاوت ہے حضرت عمر بن عبدالعزیزکے دور میں ایک دور دراز علاقہ میں ایک بھیڑیا بکری کو کھا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک دیہاتی رونے لگا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو، اس نے جواب دیا خلیفہ عمر بن عبدالعزیز وفات پا گئے ہیں۔ بھیڑیے کو اس لیئے ایسی ہمت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ خلیفہ کا ٹھیک اسی وقت ہی انتقال ہوا تھا۔