تیسری گوادر ایکسپو ، مشرق وسطیٰ ، خلیجی ، پڑوسی سمیت 15ممالک شرکت کرینگے

(کامرس رپورٹر)تیسری گوادر ایکسپو رواں سال دسمبر میں منعقد ہو گی جس میں مشرق وسطی کے ممالک، خلیجی ریاستوں اور پڑوسی مسلم ممالک سمیت 15ممالک شرکت کریں گے۔ پاکستانی حکومت گوادر پورٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے چینی کاروباری اداروں کی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے جس کیلئے ٹیکس فری مراعات سمیت متعدد ترجیحی پالیسیاں ہیں۔ گوادر میں فری زون میں سر گرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار گوادر پورٹ فری زو ن میں کام کرنے والے چینی ادارے چائنہ لنیی ٹریڈ سٹی کو کے ڈپٹی جنرل منیجر لیو ہوئی نے ایک انٹرویو میں کہی۔انہوںنے کہا کہ 2015ء سے پہلے فری زون صرف ایک خیال تھا لیکن اب اس نے چین اور پاکستان سے 429ملین ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کے ساتھ بینکنگ، انشورنس، لاجسٹکس اور فوڈ پروسیسنگ میں تقریباً 20 کمپنیوں کو راغب کیا ہے جس سے ابتدائی طو رپر 1,200 ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔لیو ہوئی نے بتایا کہ ہم نے گوادر فری زون میں گودام کی سہولیات میں سرمایہ کاری کی ہے گوادر پورٹ نے افغانستان فرٹیلائزر ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے گودام سروس فراہم کی جس کے تحت 800,000 ٹن کھاد کو سنبھالاگیا۔ گودام سروس نے دوبارہ برآمدی تجارت کو 60ملین تک فروغ دیا جس سے گوادر پورٹ نے ارد گرد کے خشکی میں گھرے ممالک کو جوڑنے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کو اجاگر کیا۔انہوں نے بتایا کہ رواں سال دسمبر میں ہم تیسری گوادر ایکسپو کی میزبانی کریں گے جس میں مشرق وسطی کے ممالک، خلیجی ریاستوں اور پڑوسی مسلم ممالک سمیت ارد گرد کے 15 ممالک شریک ہوں گے جس سے گوادر پورٹ اور یہاں جاری سرگرمیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا۔گوادر اور ارد گرد کے انفراسٹرکچر میں بہتری کے ساتھ مستقل رہائشی آبادی 2013ء میں 80,000 سے بڑھ کر 2023ء میں 220,000 ہو گئی ہے۔ پورٹ آپریٹر کا مقصد 2050 تک گوادر کو ایک سمارٹ پورٹ سٹی بنانا ہے جس کی کل آبادی 1.7 ملین سے زیادہ ہو گی اور جی ڈی پی کے حجم کا تخمینہ30 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔گوادر پورٹ کے آپریٹر چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے سابق چیئرمین ڑانگ بائوڑونگ نے کہا کہ گوادر میں ہر روز چینی مقامی لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں ،ہم ترقی کے لئے محفوظ ماحول دینے اور معاشی سر گرمیوں کی وجہ سے چینی کمپنیوں کو گوادر کے مستقبل کی واحد امید کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہم بتدریج پاکستان کی قومی طاقت کو بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن