۱۱جب تک لالچ زندہ ہے دھوکہ منڈیاں کھلی رہیں گی، فراڈیے اپنا مجرمانہ کام کرتے رہیں گے۔ دنیا میں کورونا کوختم کرنے کیلئے وسائل استعمال کئے جارہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں کتنے ڈبل شاہ ہر گلی محلہ میں عوامی وسائل پر دن دیہاڑے ہاتھ صاف کر رہے ہیں،ڈاکہ ڈا لنے اور رہزنی کرنیوالے اکثرڈاکو اور رسہ گیر آشنا افراد ہی ہوتے ہیں۔ یہ کبھی آپکی رضامندی سے نہیں بلکہ زبردستی آپ کو لوٹتے ہیں۔ حسد اور نفرت میں مبتلا ہوکر اس خوفنا ک عمل میں حصہ لیکر معاون مجرم بننے والے کبھی کبھی آپ کے قریبی لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی غیر آپ کو آپ کی مرضی کے بغیر جھانسہ دے جائے۔ کیسی زرخیز مٹی ہے ہماری ، ایک ڈبل شاہ ختم نہیں ہوتا دوسرا خود رو پودے کی طرح جنم لے لیتا ہے۔ ہر ڈبل شاہ کی ایک ہی فطرت ہوتی ہے کہ یہ طفیلئے کی طرح سب سے پہلے قریبی پھلدار درخت پر ہی چڑھ جاتا ہے اور اسے تھوڑا تھوڑا کرکے کھانا شروع کردیتا ہے۔ میں ایک سیدھا سادا اوورسیز پاکستانی ہوں۔ برسوں سے کافر ملک میں رہائش پذیر ہوں،یہاں کافروں کے عوامی فلاح کے منصوبوں اور قانون کی ایسی عملداری دیکھی ہے کہ روز حشر شاید منصف بھی انکی برائیوں اور اچھائیوں کا وزن کرتے ہوئے سوچ میں پڑجائے۔ میرا علم محدود ہے، نہیں جانتا ہوں کہ اس جملے: جس نے سود کا لین دین کیا اس نے خدا سے جنگ کی: کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کس کس جگہ لاگو ہوتا ہے ؟ میرے ہم وطن حاجی مولوی جو جنت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں انھوں نے انشورنس اور قومی بچت میں سرمایہ کاری کرنے کو سود قرار دیکر ایسا بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ سادہ لوح پاکستانی اپنی جمع پونجی کاروبار کے نام پراپنوں اور غیروں کو دیکر لٹ رہے ہیں لیکن مذہب بارے سجھائے گئے سود کے خوف کے باعث قومی بچت اور انشورنس سے پرہیز کرنیکی حتیٰ الوسع کوشش کرتے ہی۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر یہ دونوں کاروبار سود نہ نکلے تو پھر کیا ہوگا؟ جتنے لوگ اس سوچ کی وجہ سے لٹے، جنکی جانیں چلی گئیں، جنکی بیٹیاں اس نقصان کی وجہ سے کنواری ہی مرگئیں انکا ازالہ کیسے ہوگا؟اس جرم عظیم کا ملبہ کس کس پر اور کتنا ڈالا جائیگا ؟ روز حشر تو اس نقصان کی بھرپائی بھی نہیں کرسکیں گے۔
موجودہ دور جدید کے ڈبل شاہوں کے بارے کون نہیں جانتا ؟عالم بالا میں پٹتے بنارس کے ٹھگ بھی حیران ہوں گے ہم تو ایک شہر کے گنے چنے افراد تھے یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں جگہ جگہ گلی گلی شہر شہر ڈبل شاہ نہ صرف گھوم رہے ہیں بلکہ دن دیہاڑے ایسے ایسے شاہکار منصوبے لیکر سامنے آتے ہیں کہ سننے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، ڈبل شاہ ایک سوچ ایک نظریے پر قائم رہ کر حرام کمائی کرنے کا نام ہے۔
یہاں پر ایک چھوٹے سے ڈبل شاہ کا ذکر کرتا ہوں جس نے کاروبار اور بینک سے زیادہ ماہانہ منافع کا لالچ دیکر اپنی بیوہ ساس سے ڈیڑھ کروڑ روپے ہتھیا لئے ، تحقیقات کروانے پر پتہ چلا کہ اس کیخلاف پانچ ایف آئی آر پہلے سے ہی درج ہیں،نئی گاڑیوں کی بکنگ کے بدلے لاکھوں روپے وصول کرنے کی مد میں چھ کروڑ روپے وصول کئے گئے۔ یہ ننھا ڈبل شاہ اب گرفتار ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی اس فراڈ کو روکنے اور عوام کو بچانے اور انکی سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے ریاست نے کبھی کوئی ٹھوس قانون سازی کی کہ مجرموں کو نشانہ عبرت بنا جائے تاکہ کوئی اس بارے سوچے بھی نہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کبھی عوام کو لٹنے سے بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ،اس کی وجہ سے ستر سالوں سے پاکستانی عوام لٹتے چلے آرہے ہیں،انھیں لوٹنے والوں کی تعداد بڑھ ہی رہی ہے کم ہونیکی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، اب بھی کوئی ڈبل شاہ ڈنکی لگا کر باہر بھجوانے کا جھانسہ دیکر جوانوں کو سمندر برد کررہا ہے، کوئی بنک سے زیادہ منافع دینے کی پیشکش کررہا ہے،کوئی کاروبار کا جھانسہ دیکر ادھار لیکر واپس نہ لوٹانے کی پالیسی پر گامزن ہے، کوئی اپنے لوگوں کے پیسوں سے زمینیں خرید کر اپنے نام لگوانے میں مصروف عمل ہے، کوئی گاڑی اوبر پر ڈال کرلوگوں کی گاڑیاں ہی بیچنے میں مصروف ہے،لٹنے والے عوام اپنے نقصان کا ازالہ کرنیکی کوشش میں عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں لیکن سالوں بیت جاتے ہیں ، کبھی ملزم مرجاتا ہے اور کبھی مدعی ،اس طرح قضیہ بھی دفن ہوجاتا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے یہاں ادارے موجود نہیں ہیں؟ اس کا جواب ہے۔ موجود ہیں۔ پھر کیا وہ اپنا کام رہے ہیں؟ اس کا جواب ہے وہ کام کررہے ہیں لیکن عوام کیلئے ہرگز نہیں ،وہ جب چاہیں جیسے چاہیں مخالف کو ملزم بنا کر مجرم ثابت کردیں، اسکی آزادی کو قید میں بدل دیں،کسی کی زمین پر قبضہ کروادیں،مخالف کو غائب کر دیں یا اسے دوسری دنیا میں پہنچا دیں۔