سعدےہ قرےشی کو مےں عرصے سے جانتی ہوں اکثر فےس بک پر اس کے کالم پڑھتی تھی‘ لےکن ملاقات کا شرف حاصل نہےں ہوا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے سلمیٰ اعوان نے عشائےہ پر بلاےا تو وہاں سعدےہ قرےشی بھی موجود تھےں۔ مل کر اچھا لگا اس زر پرست اور منافق معاشرے مےں اس کی تحرےرےں، تجربات، مشاہدات اور اچھے خےالات سے بھری ہےں۔ مجھے اس کے مزےد روشن مستقبل کی نوےد سنائی دےتی ہے۔
اس کی تحرےر مےں سادگی،بے ساختگی اور احساسات کی ترجمانی واقعات اور مناظر کی سادہ تصوےر کشیبڑے ہی عمدہ پےرائے مےں رقم کرتی ہے۔
مےرے گھر ملاقات کےلئے آئی تو اس کے ہاتھ مےں کتاب تھی جو حال ہی مےں شائع ہوئی تھی”کےا لوگ تھے“مےرے لئے بڑا انمول تحفہ تھا۔ شکرےہ کے ساتھ مےں نے کتاب لے لی۔ ان دنوں مصروفےات کچھ اس قدر تھےں کہ مےں اس کتاب کو جلد پڑھ نہ سکی۔ البتہ مےرے شوہر شےخ رےاض احمد نے چند کالم پڑھے تو مجھے کہا۔
”سعدےہ نے بہت عمدہ کالم لکھے ہےں“۔ مےرا تجسس بڑھ گےا اور دل مےں ٹھان لےا کہ مےں بھی اسے ضرور پڑھوں گی۔
مگر بد قسمتی سے جو بھی کتاب آتی ہے وہ کمرے مےں ہی گم ہو جاتی ہے۔ ےوں لگتا ہے کہ کوئی طلسماتی روح آتی ہے اور کتاب لے اڑتی ہے۔
خےر چند روز بعد کتاب بر آمد ہو گئیاور مےں نے اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دےا اور دو روز مےں کتاب پڑھ لی۔
سعدےہ لکھتی ہے۔
ےہ کالم مےرے احساسات کا اظہار ہےں جو اپنے عہد کے ان بڑے لوگوں کی وفات پر محسوس کئے۔ مےں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ ڈاکٹر عبدالقدےر،سےد گےلانی اور لاوارثوں کے اےدھی بابا اور اماں بلقےس کے عہد مےں سانس لےا۔ ان پر کتابےں لکھی جا سکتی ہےں۔
سعدےہ قرےشی کے کالموں مےں حسن،شائستگی اور وقار ہے۔ صحافت مےں اس کا بلند مقام ہے بڑے لوگوں کی وفات پر صحافی کے احساسات کا عکس ہے۔ غرض کہ بہترےن کالم نگاروں مےں سعدےہ کا نام سرفہرست آتا ہے۔ بہت کم مدت مےں اس نے شہرت حاصل کی اور اپنے لئے اےک خاص مقام بنا لےا۔ اہم شخصےات پر کالم لکھنا اور ان کے بارے مےں پڑھنے والے قاری کو سب معلومات مل جاتی ہےں ےہ بہت خوبی کی بات ہے۔
کالم تو سبھی لکھتے ہےں مگر اس کے ذہن مےں اچھوتا خےال پےدا ہوا اور ان کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی۔ امجد اسلام امجد اور بشریٰ رحمان جس کو مےں بڑی اچھی طرح سے جانتی تھی بلکہ وہ مےری بہترےن دوست تھی۔ اس کی وفات پر مےں اتنی رنجےدہ اور دکھی ہوئی تھی اس کتاب مےں سعدےہ نے بشریٰ رحمان کے بارے مےں بڑی تفصےل سے لکھا ہوا تھا۔ ےہ پڑھ کر مےری آنکھو ں مےں آنسو آگئے اور دل کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔
سعدےہ کے کالم جےتی جاگتی اور بولتی ہوئی تصوےر کی مانند ہےں۔ مرنے والے کا دکھ اس قدر محسوس کرتی ہے کہ اسے اپنا دکھ محسوس ہوتا ہے۔
سعدےہ لکھتی ہے۔
نومبر 2017ءکو دےنا جناح نے نےوےارک مےں وفات پائیجہاں جہاں پاکستانی تھے انہوں نے بڑے دکھ کا اظہار کےا۔ کےونکہ وہ ان کے محبوب قائد کی اکلوتی بےٹی تھی۔ قائد اس سے تعلق توڑ چکے تھے۔ رشتوں مےں لاکھ اونچ نےچ آتی رہے ےہ لہو کے رشتے بدلنے والے نہےں ہوتے۔ باپ اور بےٹی کے اختلاف کے لاکھ فاصلوں کے باوجود محبت کی خوشبو کبھی مقام جہاں سے ہجرت نہےں کرتی۔
سعدےہ بڑے ہی احساس دل کی مالک ہے۔
ارشاد حقانی کے بارے مےں لکھتی ہےں۔
”ارشاد حقانی اس فانی دنےا سے اگلے جہاں مےں رخصت ہو گئے مجھے آج ےہ بات حےران کن لگتی ہے کہ انہےں اپنی موت کا الہام کےسے ہو گےا تھا۔ انہوں نے باقاعدہ اپنی رخصتی کی تےاری شروع کر دی تھی 24جنوری کو جب ان کی وفات کی خبر ملی۔ مےں ان کی رہائش گاہ پر تھی۔ سفےد کفن مےں گلاب کے سرخ پھولوں کے فرےم مےں زندگی سے عاری ان کا چہرہ دےکھا وہ سارے لمحات ےاد آگئے جب وہ بڑے اطمےنان اور اندر کے ےقےن سے اپنی رخصتی کی تےاری کر رہے تھے جےسے کوئی سفر پر جانے کی تےاری کرتا ہے۔
اچھے کالم نگار کی نشانی ےہ ہوتی ہے کہ اس کی تحرےر آج کے حوالے سے مستند ہو لےکن وہ قاری کو نےا زاوےہ، نئی معلومات اور نئے افکار سے روشناس کروائے اس وجہ سے اےک اعلیٰ کالم کی بہت لمبی عمر ہوتی ہے۔
سعدےہ قرےشی نے اپنی تحرےروں سے ثابت کےا ہے کہ شاعری کے علاوہ وہ اےک بہت عمدہ کالم نگار ہے۔
اللہ کرے زور و قلم اور زےادہ۔