مصلحت پسندی کے اسیر

اڑان اتنی اونچی کہ ہمالیہ کی چوٹیاں لاج سے پانی پانی ہو جائیں، فِکری سَطح اِتنی بلند کہ ماہ و آفتاب ایک باریک نقطے کا سا روپ دھار لیں، خواب اتنے سہانے کہ بھولے سے بھی ڈراو¿نے پن کا شائبہ تک نہ ہو، شعلہ بیانی کے ہنر میں اتنی یکتائی کہ ایک ایک لفظ سامعین کے دماغ کی شریانوں کو سحر زدہ کر دے، خوش بختی کا وہ مقام کہ ہما کے پنکھ نوچ کر اسے اس کے کندھے پر بٹھایا گیا ہو اور شخصیت کے اجلے پہلوو¿ں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ غیر اجلے دامن کو اعلیٰ درجے کے مرکب سے دھو کر اتنا اجلا تر کر دیا گیا ہو کہ آنکھیں اپنی بصارت اور ذہن اپنی بصیرت کو سوالیہ نظروں سے دیکھیں۔
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ایسے مثالی حالات میں کیا یہ نہیں ہونا چاہئیے تھا کہ سیاسی اور اقتصادی بازیاں پلٹنے کا ہدف سہل اور سبک رفتار ہو جاتا، ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جاتیں، فی کس آمدنی بڑھنے کا گراف بنگلہ دیش اور بھارت کے ہم پلہ ہو جاتا، میرٹ کو رواج دے کر بیروزگاری اور نیم بیروزگاری کے آسیب کو وطن عزیز سے راہِ فَرار اختیار پر مجبور کر دیا جاتا، ریاست مدینہ کی پیروی کرنے کے نتیجے میں فیوض و برکات اور آفاقی رحمتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا، جھوٹ، مکر، فریب، ملاوٹ، رشوت، اقربا پروری اور منافقت جیسی خرابیاں حروفِ غلط کی طرح عنقا ہو جاتیں، بدیشی ممالک سے ہماری ان گنت لوٹی ہوئی دولت واپس آ جاتی، ملک لوٹنے والے نشانِ عبرت بن جاتے، خارجہ امور میں مثالی کارکردگی سابقہ حکمرانوں کا منہ چڑا رہی ہوتی، ادائیگیوں کا توازن ریاست کے حق میں ہو جاتا، دولت کی منصفانہ تقسیم کا اصول پوری ریاستی قوت کے ساتھ نافذالعمل ہوتا اور قانون کا اطلاق بلا شرکتِ غیرے کمزور اور زور آور کے لئے حجتہ الوداع کے مقدس اور مثالی خطبے کے زریں اصولوں کے مطابق ہوتا۔
مگر صد حیف اتنی تکریم، اہتمام اور علانیہ و غیر اعلانیہ اختیارات رکھنے کے باوجود کچھ بھی تو نہ ہو سکا۔ عثمان بزدار اور محمود خان کو مختلف حلقوں کی بار بار کی دہائیوں اور سماجتوں کے باوجود پنجاب اور کے پی کے پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار رکھا۔ اِس منظورِ نظر جوڑی کی ناقابلِ یقین حد تک ناقص کارکردگی کے ردِ عمل میں کسی طور عَرقِ اِنفِعال کے قطرے کشادہ پیشانی سے نمودار نہ ہو سکے۔ مربیوں نے الفت کے بشری تقاضے نبھاتے ہوئے اس کی زمین بوس ہوتی مقبولیت اور مسخ شدہ ساکھ کو عدمِ اعتماد کے پر لگا کر اوجِ ثریا پر پہنچانے کا بندوبست کر ڈالا۔ اِس عمل نے اس کی شخصیت میں پہلے سے ہی موجود تفاخر کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا۔ سائفر کے شبدوں سے بُننا گیا بیانیہ اور 'امپورٹڈ حکومت نامنظور' کا بطور 'ٹاپ ٹرینڈ' چلنا ہی کیا کم تھا کہ 'ہم کوئی غلام ہیں' کے چارحرفی فقرے نے دھوم مچا کر عوامی پذیرائی اور مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔
تحریکِ عدم اعتماد سے جس غیر آئینی اور غیر مناسب انداز میں نپٹا گیا، کسی بھی ذی شعور کو اس کے دفاع یا حمایت کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا پڑتا۔ اِس آئین شکنی پر کسی قانونی چارہ جوئی کا ممکن نہ ہونا، بعدازاں اسلام آباد پر چڑھائی کے دوران توڑ پھوڑ اور جلاو¿ گھیراو¿ کے واقعات پر پی ٹی آئی کی لیڈرشپ پر ہاتھ نہ ڈال سکنے کی وجہ سے حکومت کا کَفِ اَفسوس مَلنا، پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت کے تشکیل پانے اور ٹوٹنے کے تمام عمل پر فقط ہونٹ کاٹ کر رہ جانا اور حکومت کا اپوزیشن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر عدالتی ریلیف کے فوری سامان پیدا ہونے پر ہاتھ ملنا، وفاقی حکومت کی بے بسی، لاچاری اور مایوسی کو عیاں کرنے کے لئے کافی تھا. اسٹیبلشمنٹ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کاندھے تھپتھپانے کے ساتھ ساتھ ظاہر و پنہاں پیغامات کے ذریعے ان کو ان کی حیثیت بھی یاد دلا رہی تھی۔ نظریہ ضرورت کے تخلیق کار اور نگہبان حسبِ سابق اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے، اور ایک شخص اختیارات کے زعم میں اپنی دانست میں سیاست، معیشت، جمہوریت اور خارجہ امور چلانے کا حق ادا کر رہا تھا مگر درحقیقت اس کے اِس عمل سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہو رہا تھا، حتیٰ کہ اس کا اپنا بھی نہیں۔ عمران خان آئینی شمشیر زنی کی بجائے بچپنے کی غلیل زنی پر آ گئے۔ بعد میں جب ان کو احساس ہوا کہ غلیل زنی تو شمشیر زنی کا نعم البدل نہیں ہے تو اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ سانپ نکل چکا تھا اور لکیر کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ پیٹنے کا حتمی نتیجہ 9 مئی کے سانحہ کی صورت میں برآمد ہوا۔
دوسری طرف پی ڈی ایم تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب راج سِنگھاسَن پر براجمان ہوئی تو اس کی مقبولیت کا گراف اسی تیزی سے نیچے کی جانب لپک رہا تھا جتنی سبک انداز سے عمران کا گراف اوپر کی سطح پر جست لگا رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے دونوں کی حیثیتیں اور ہئیتیں باہم بدل گئی ہوں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے نامساعد حالات کے باوجود قانون سازی کے ذریعے اپنی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی تدبیریں جاری رکھیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں وزیراعظم اور ان کے صاحب زادوں سمیت پی ڈی ایم کے رہبروں کے خلاف بنائے گئے مقدمات ایک ایک کر کے ختم ہونا شروع ہو گئے۔ اِسے مکافاتِ عمل کہئیے یا کچھ اور! خان اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کے دباو¿ کا سامنا کرنے سے احتراز برت رہے ہیں۔ 
اگر عمران خان کسی کے دَستِ شفاعت کے طفیل اپنا اور پی ٹی آئی کا سیاسی وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ حکومتی اتحاد کے لئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے حکومتی دعوﺅں کے باوجود مہنگائی کی موجودہ لہر اس کی اِن خوشیوں پر پانی پھیرنے کے لئے کافی ہے۔ مہنگائی اور خاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی بقا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ اشرافیہ کو تو بھلے مہنگائی سے کوئی قابلِ ذکر فرق نہ پڑے مگر افلاس زدہ عوام کا کچومر نکل جائے گا۔ ایک زاویہ نگاہ یہ بھی ہے کہ حکومتی اتحاد کو معیشت، مہنگائی، ووٹ بنک اور ہار جیت سے زیادہ اپنی اور اپنی سیاسی موروثیت کے بقا کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ اس فکر سے وہ اب کافی حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔ اب مفلس جانیں اور ان کا کام، اشرافیہ کو اِس سے کیا لینا دینا؟

ای پیپر دی نیشن