” تذکرہ خ±لد آشیانی، آغا حامد علی شاہ موسوی !“ 

معزز قارئین ! 29 جولائی 2022ءکے ” نوائے وقت “ کی خصوصی اشاعت میں ، نامور ادیب ، دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف خصوصاً ” مَصَابیح ا±لجِنان“(جنت کے چراغ) سیّد عباس کاظمی کے نام سے ” پاسدارِ دین و وطن مجسمہ عشق رسول ، اہل بیت ، آغا حامد علی شاہ موسوی کی رحلت مبلغ وحد و اخوت کی نمازِ جنازہ میں بلا تفریق مسلک و مذہب ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ پھر 4\5 نومبر 2022ئکو ” تذکرہ خ±لد آشیانی، آغا حامد علی شاہ موسوی کے عنوان سے ” نوائے وقت “ میں میرا کالم بھی شائع ہوا تھا۔ 
” ترویج ِ افکار موسوی!“
معزز قارئین ! اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ 9\10 فروری 1984ءکو ”آل پاکستان شیعہ کنونشن“ میں ، قائد ملّت جعفریہ “ آغا حامد علی شاہ موسوی کو سربراہ منتخب کِیا گیاتھا اور اب 16 جولائی (بروز اتوار) 2023ءکو، راولپنڈی کی ” علی مسجد“ میں آغا جی کے شاگردِ رشید علامہ آغا سیّد حسین مقدسی کی قیادت میں نئے انداز میں ” ترویجِ افکار موسوی “ کا اعلان کِیا گیا ہے۔ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی کے دونوں قانون دان بیٹے ، سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی ر±وح العباس موسوی کے علاوہ کئی دوسرے نائبین کو بھی شامل کِیا گیا ہے۔ ”ح±سینیت ، یزیدیت اور ع±لمائے س±و، ک±و بہ ک±و!“کا سلسلہ انشاءاللہ جاری رہے گا۔ مسلمان اہلسنت ہوں یا شیعہ برادری، متحد ہو کر یہ منصب جاری رکھیں گے۔انشاءاللہ۔ 
” راولپنڈی کے حقیقی درویش !“
معزز قارئین ! بطور صحافی یہ میری اپنی کہانی بھی ہے ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں قومی اخبارات میں خبر شائع ہ±وئی کہ ”وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سپریم شیعہ علماءبورڈ کے سرپرست قائد ِ ملّت جعفریہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی کو ملاقات کے لئے وزیراعظم ہاﺅس میں مدّعو کِیا تھا لیکن ا±نہوں نے معذرت کرلی تھی۔اور یہ جواب بھجوایا تھا کہ ” مَیں حکمرانوں سے ملاقات نہیں کرتا ! ‘چند دِن بعد اخبارات میں پھر خبر شائع ہ±وئی کہ ” وزیراعظم بے نظیر بھٹو بغیر کسی "Protocol"کے آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے ملاقات کے لئے ” علی مسجد“ پہنچ گئی تھیں لیکن مسجد کے منتظمین نے وزیراعظم صاحبہ سے کہا کہ ” آغا جی خواتین سے ملاقات نہیں کرتے۔
” پہلی ملاقات !“
معزز قارئین ! چند دِن بعد مَیں نے لاہور سے راولپنڈی جا کر آغا حامد علی شاہ صاحب سے پہلی ملاقات کی۔ مَیں نے اپنے روزنامہ ”سیاست“ لاہور میں ا±ن کا انٹرویو شائع کِیا اور روزنامہ ” نوائے وقت “ میں کالم بھی۔آپ نے کہا کہ ” میرے بزرگ ، ”مصّورِ پاکستان “ علاّمہ محمد اقبال اور ” بانی پاکستان “ قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد کی حمایت کرتے رہے ہیں !“۔دوسری ملاقات میں میرے دو صحافی دوست سیّد ضمیر نفیس اور ارشاد احمد بھٹی میرے ساتھ تھے تو آغا جی نے بتایا کہ”ہماری تنظیم ” تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ“ نے ایران سے کبھی کسی قسم کی امداد طلب نہیں کی اور مَیں مذہبی جماعتوں سے گذارش کِیا کرتا ہ±وں وہ سیاست میں حصہ نہ لیں اور شیعہ س±نی اتحاد کو فروغ دیتے رہیں۔ 
” درویشوں کا وقت قیمتی!“ 
معزز قارئین ! مَیں نے آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے 19 جنوری 2016ءکو تیسری ملاقات کی۔ تیسری ملاقات میں میرے ساتھ میرا داماد معظم ریاض چودھری بھی تھا اور ا±دھر سے سیّد قمر زیدی، سیّد عباس کاظمی ، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی اور شہاب مہدی رضوی کے علاوہ آغا صاحب کے دونوں قانون دان بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی ر±وح العباس موسوی بھی تھے۔ آغا صاحب نے مجھے بتایا کہ۔ ” مَیں چاہتا ہ±وں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبال اور قائدِاعظم کی طرح قوم کی خدمت کریں!“۔
 ” مَصَابیح ا±لجِنان“
معزز قارئین ! 2007ءمیں تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری اطلاعات سیّد قمر حیدر زیدی ، سیّد رضا کاظمی اسلام آباد میں کئی کتابوں کے مصنف ، دانشور اور کیمیکل انجینئر سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر میرے گھر اسلام آباد پہنچے اور ا±نہوں نے مجھے آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی کا پیغام دِیا کہ ” اثر چوہان صاحب آپ ” جنّت ا±لبقیع“ کے بارے سیّد عباس کاظمی کی تصنیف ” مَصَابِیح ا±لجِنان“ کا پیش لفظ لِکھ دیں !“۔
”مَصَابِیح ا±لجِنان“ کے معنی ہیں (جنت کے چراغ)۔ مَیں نے کتاب کا پیش لفظ لکھ کر بھجوا دِیا۔ جولائی 2008ءمیں ”مَصَابِیح ا±لجِنان“ پاکستان سمیت کئی ملکوں میں منظر عام پر آگئی۔ میرے پیش لفظ کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا تھا ” کہ اثر چوہان صاحب کا شمار نامور صحافیوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے ، آپ ” مکتب ِ اہلسنت “ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن، ”اہلِ بیتؓ “ کی بہت عزّت کرتے ہیں ! “۔
’ ’ ح±سینی براہمن! ‘ ‘ 
 دسمبر 2011 ءمیں میرے دو لہوری دوست ، ماہر تعلیمات، سیّد محمد یوسف جعفری اور سیکرٹری ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ سیّد شاہد رشید(اب مرحوم) ، میرے پاس تھے۔ جعفری صاحب نے پوچھا کہ ” برادرم اثر چوہان ! کیا آپ جانتے ہیں کہ ” سانحہ کربلا میں ،حضرت امام حسین ؓکے چند عقیدت مند ”ہندو براہمن“ بھی شہید ہ±وئے تھے ؟۔ مَیں نے کہا کہ ”جی ہاں ، مجھے معلوم ہے لیکن مجھے بہت د±کھ ہے کہ، ا±س دَور میں ہندوستان (خصوصاً پنجاب ) کا کوئی راجپوت۔ ”ش±ہدائے کربلا “کے ساتھ کیوں شہید نہیں ہ±وا؟“۔ معزز قارئین!۔ا±سی رات صبح تک مَیں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓاور ش±ہدائے کربلا سے متعلق منقبت لکھی جو، دسمبر 2011ءمیں میرے ہفت روزہ جریدہ ” چانن“ لاہور میں شائع ہ±وئی۔
” حسینی راجپوت!“
معزز قارئین ! یکم اکتوبر 2017ءکو میری منقبت شائع ہ±وئی جس کے صرف دو بند پیش کر رہا ہوں قبول فرمائیں ....
تیرے ، غ±لاماں نال ، کھلوندا 
پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا
فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا
جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا
....O....
نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا
غازی عباسؓ دا ، باز±و بَن دا
ح±ر دے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا
جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا
....O....
ا±سی شب سیّد عباس کاظمی نے مجھے فون پر بتایا کہ ” آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی نے اپنے تمام ر±فقاءکو فرمان دِیا ہے کہ ” آج سے اثر چوہان صاحب کو ” حسینی راجپوت “ کہا جائے۔ معزز قارئین !” حسینیت“ اور ”یزیدیت“ کا دَور دورہ تا قیامت جاری رہے اور اپنی حیات تک مَیں بھی اِس دَور میں شامل رہوں گا۔ انشاءاللہ !۔

ای پیپر دی نیشن