مردم شماری منظور، آئندہ عام انتخابات کے ملتوی ہونے کا امکان

Aug 07, 2023

مشترکہ مفادات کونسل نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دیدی ہے۔ اس مردم شماری کے مطابق، پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراءاور مختلف محکموں کے حکام بھی شریک ہوئے۔ وزارت منصوبہ بندی نے کونسل میں نئی ڈیجیٹل مردم شماری و خانہ شماری پر بریفنگ دی اور نتائج پیش کیے۔ سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے مردم شماری پر آمادگی ظاہر کی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) نے مردم شماری کااختیار کے نتائج سے متعلق وزیراعظم کودیدیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک اہم آئینی ادارہ ہے،پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بہترین طور سے مکمل ہوئی جو خوش آئند ہے،صوبائی حکومتوں اور وفاقی ادارہ¿ شماریات نے اس قومی فریضے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
وزیراعظم کی طرف سے مختلف اداروں، وزارتوں، محکموں اور ان کے سربراہان کو دی جانے والی مبارک باد اور شاباش اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں بہت سی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے اس کے نتائج کو مصدقہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حد یہ ہے کہ فیلڈ میں جا کر اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے مردم شماری کے عملے کے پاس کئی اہم سوالات کے جواب نہیں تھے اور ان جوابات کی عدم دستیابی اعداد و شمار کے درست اندراج کے سلسلے میں رکاوٹ بنی۔ اسی طرح، مردم شماری کے علاوہ خانہ شماری کے لیے جو نہایت تفصیلی سوالات ترتیب دیے گئے تھے انھوں نے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا جس کی وجہ سے انھوں نے درست جواب مہیا کرنے سے گریز کیا۔ حکومت کو آئندہ مردم شماری و خانہ شماری کے موقع پر ان تمام معاملات و مسائل کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دیتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کے اضافے کا تناسب پاکستان کی معاشی ترقی سے کہیں زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافہ متعدد قسم کی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ پاکستان میں آئندہ منتخب شدہ حکومت اورمستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے،ہمیں نہ صرف آبادی میں اضافے کو روکنا ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھا کر ان چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔ وزیراعظم نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا اضافہ اس کی معاشی ترقی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ معاشی جمود کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ہمارے ملک میں آبادی کے بڑھنے سے زیادہ بڑا مسئلہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد کی اکثریت بے روزگار ہے جنھیں کام کر کے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہر فرد کے پاس اگر کھانے کے لیے ایک منہ ہے تو کام کرنے کے لیے دو ہاتھ بھی ہیں لیکن اگر حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہاتھوں کو کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہ ملے تو ظاہر ہے ان کے مقابلے میں کھانے والے منہ زیادہ ہو جائیں گے۔
خیر، مذکورہ مردم شماری کے نتائج منظور ہونے سے قومی سطح کے جو مسائل پیدا ہوں گے ان میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کا انعقاد تین ماہ میں ممکن نہیں ہو پائے گا۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد دو روز پہلے ایک انٹرویو کے دوران یہ بتاچکے ہیں کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے نتیجے میں الیکشن ایکٹ کی سیکشن 61 کی سب سیکشن 5 کے تحت ازسر نو حلقہ بندیا ں کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ اس عمل کو مکمل کرنے میں چار سے چھ مہینے لگ سکتے ہیں اور اگر کسی کو ان حلقہ بندیوں پر اعتراض ہوا تو پہلی اپیل الیکشن کمیشن کے پاس جائے گی اور اس کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم بھی دستیاب ہیں جہاں پر لوگ اپنی درخواستیں لے کر جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ زمینی حقائق کے مطابق الیکشن نومبر کی بجائے فروری یا مارچ کے آغاز میں ممکن ہو سکیں گے، وہ بھی اس صورت میں کہ حلقہ بندیوں کا عمل اور دیگر تیاریاں مکمل ہو جائیں۔
اب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت عام انتخابات منظور شدہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ہوں گے، اب یہ الیکشن کمیشن پر ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کا عمل کتنی جلدی کرتا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں کی نشستوں کی تعداد پہلے جتنی ہی رہے گی، اس میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگی۔وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ آئینی بحرانی کیفیت تھی جس کو اب دورکرلیا گیا ہے۔ الیکشن میں التوا ہو تو نگران حکومت کو کوئی آئینی کور کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مردم شماری کے نتائج کو منظور کر کے وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے اپنے لیے تو گنجائش پیدا کر لی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت معاملات کو کیسے سنبھالتی ہے۔ اس وقت ملک جس معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اس کی وجہ سے عوام بہت بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں اور افراد نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے تو بہت سے کیے تھے لیکن عملی طور پر ان کے فیصلوں کی وجہ سے گزشتہ تقریباً سوا سال کے دوران عوام کا معاشی بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ اب نگران حکومت کو معاشی استحکام کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جن شرائط کے تحت ہمیں قرضہ دیا ہے وہ بھی ایک تلوار کی طرح نگران حکومت کے سر پر لٹک رہی ہوں گی۔

مزیدخبریں