بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
امام علی کا فرمان ہے '' صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں، حالات پلٹیں گے ضرور پلٹیں گے ! دعا ئیں ضرور قبول ہونگیں'' ہمارا ایمان ہے اللہ پاک دعائیں ضرور قبول فرما تے ہیں اپنے وقت پر اور ظلم کا خاتمہ بھی ایک نہ ایک اس کے حکم سے ضرور ہونا ہوتا ہے۔دسمبر1974کے وہ دن … ہمیں یاد ہے کہ ہم جونئیر سکول میں زیر تعلیم تھے کہ اس وقت کوئی ایمرجنسی ہوتی تو اس بڑی خبر کیلئے ضمیمہ شائع کیا جا تا تھا۔ اس روز عصر کا وقت تھا کہ ہاکرز زور و شور سے آوازیں لگا رہے تھے کہ شیخ مجیب الرحمان کو قتل کر دیا گیا اور بنگلہ دیش کا انتظام فوج نے سنبھال لیا ہے۔ اس فوجی آپریشن میں شیخ مجیب الرحمن کی پوری فیملی میں شیخ حسینہ واجد کے علاوہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا اور حسینہ صاحبہ اس لئے زندہ بچ گئی کہ وہ اپنی بہن کیساتھ برطانیہ میں تھیں اور شیخ حسینہ واجد نے تقریبا 6 سال تک دہلی میں جلا وطنی گزاری اس دوران ہندوستان کی ایجنسیوں نے ان کی پاکستان کے خلاف اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے حمایتی عوام اور پارٹیوں کے خلاف خوب ذہن سازی کی۔فروری 1981 میں ان کو عوامی لیگ کا صدر منتخب کروایا گیا اس کے بعد شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش پہنچ گئی 1996 میں پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم بن گئی اور دور حکومت 2001 تک رہا پھر۔ 2009 میں دوبارہ وزیراعظم بنی اور 2014 تک وزیراعظم رہیں وہ 1981 سے اب تک عوامی لیگ کی سربراہ ہیں مجموعی طور پر عنان اقتدار تقریبا 15 سال پر محیط ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ تک پرائم منسٹر ہاﺅس میں رہنے والی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں یہ ایک فاشسٹ اور ڈکٹیٹر حکمران کے طور پر سامنے آئیں اپنے دور میں چن چن کر پاکستان کے حمایتیوں کو پھانسیاں دیں۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے راہنماو¿ں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے مگر آفرین ہے ان تمام لوگوں پر پھانسی کے پھندے قبول کر لئے لیکن جبر اور ظلم کے سامنے جھکنا قبول نہیں کیا پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ 100 دن چور کا اور ایک دن سادھ کا ظلم پھر ظلم ہی ہوتا اور یہ قانون قدرت ہے کہ ظلم نے ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہوتا ہے اور وہ دن 5 اگست 2024 کو بنگلہ دیش میں آ ہی گیا اور یہ دن تاریخ کا حصہ بن گیا کہ بحیثیت وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استفعیٰ دے کر اپنے آبائی گھر ہندوستان فرار ہو گئی اور فرار ہونے کی وجہ یہ بنی کہ ان کو عوامی لیگ کے علاو¿ہ بنگلہ دیش میں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ہر عہدے پر عوامی لیگ کے لوگوں کی تعیناتیاں بیوروکریسی اور فوجی افسران کے بچوں اور رشتے داروں کی بھرتیاں ہوتی رہیں اور باقی عوام بھاڑ میں۔ اللہ پاک کی لاٹھی واقعی بے آواز اور بہت طاقتور ہوتی ہے یہ نظام قدرت ہے کہ جب کسی کا برا وقت آتا ہے تو اللہ پاک کی طرف سے اس کی مت ماری جاتی ہے یہاں پر بھی یہی کچھ ہوا تقریبا 2 ماہ پہلے محترمہ نے اقربا پروری کے لئے ایک قانون منظور کروایا اور اس قانون کے تحت عوامی لیگ، بیوروکریسی اور فوجی افسران کے بچوں اور رشتے داروں کو نوازنے کے لئے 65 فیصد کوٹہ مقرر کر دیا اس کوٹہ سسٹم سے عوام اور طالب علموں میں شدید اضطراب کی صورتحال پیدا ہو گئی اور اس کوٹہ سسٹم کے خلاف سب سے پہلے ڈھاکہ یونیورسٹی میں طالب علموں نے یونیورسٹی کے اندر پر امن احتجاج شروع کیا لیکن حکومت کے آرڈر پر بنگلہ دیشی پولیس نے یونیورسٹی میں گھس کر طالب علموں کو زدوکوب کیا اور بری طرح مارا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جو احتجاج یونیورسٹی کے اندر پر امن طریقے سے ہو رہا تھا وہ احتجاج یونیورسٹی کے اندر سے نکل کر باہر سڑکوں پر آ گیا پھر پورے بنگلہ دیش کی عوام اس میں شامل ہو گئی اور کرتے کرتے یہ احتجاج بنگلہ دیش کے ہر شہر میں شروع ہو گیا اور اس میں دن بدن شدید قسم کا تشدد آ گیا حکومت کے ایماءپر پولیس نے اندھادھند فائرنگ کی جس کی وجہ سے بہت ہلاکتیں ہو گیئں اور محترمہ وزیراعظم کے سر پر ان ہلاکتوں کی وجہ سے جوں تک بھی نہ رینگی صرف 4اگست کو ایک ہی دن میں 3 سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں. عالمی میڈیا کے مطابق خونیں مظاہروں کے دوران بنگلہ دیش کو 27کھرب 60ارب کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس طرح 5 اگست کو ہی طالب علموں کی محنت اور شہیدوں کا خون رنگ لایا بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ نے وزیراعظم کو استفعی دے کر ملک سے نکلنے کے صرف 45 منٹ دیے اور محترمہ بھاگ کے اپنی جان بچا کر اپنے ''میکے'' انڈین وزیراعظم مودی کے دربار میں پہنچ گئی شہیدوں کا خون رنگ لے آیا قربانیوں نے اپنا اثر دکھایا محترمہ کے بھاگنے کے بعد ڈھاکہ میں ایک مرتبہ پھر کھلم کھلا پاکستانی پرچم لہرایا گیا اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس طرح ایک ڈکٹیٹر خاتون کا کم و بیش 15 سالہ دور اقتدار اپنے انجام کو پہنچا۔ بنگلہ دیشی عوام کو سلام جن کی قربانیوں سے ظلمت اندھیرے چھٹ گئے!!