نظام امتحانی پر غیروں کی چھاپ

دانش …منظرالحق
 manzarhaque100@ gmail.com

ہمارے ایک عزیز دوست نے فن لینڈ کے متعلق ڈاک روانہ فرمائ،جس میں ان کے نظام تعلیم پر تفکرانہ نظر ڈالی گئی اور تربیت بلا امتحانات کا انوکھا تجربہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔سکینڈینیوین ممالک اپنے بچوں کو درسگاہ سے نکال کر،بیرونی دنیا کے راز منکشف کرنے کی تربیت دیتے ہیں اور اپنے آس پاس موجود پھول پتے و درخت، سمندر، جھیل و دریا اور رہت کے ٹیلوں،پہاڑوں کی چوٹیوں اور سنگلاخ چٹانوں کی ہیئت و معنویت پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔بچوں کو نہ امتحان کا ڈر و خوف ہوتا ہے،بس وہ ہنسی خوشی اور کھیل کھیل کے دوران،اپنی دنیاوی تعلیم و تربیت کا آغاز کرتے ہیں۔اس قسم کی تعلیم صرف اسی وقت مہیا کی جا سکتی ہے،جب اساتذہ کرام کا اپنا ذہن کھلا ہوا ہو اور وہ زمین،آسمان و پانی کے مخفی رازوں سے خود آگاہی رکھتے ہوں۔استاد بچوں سے محبت و شفقت و انسیت کے ساتھ پیش آئیں،ان کے ذہنوں کی نشوونمائ و آبیاری اپنا مقصد حیات گردانیں اور ان کلیوں کو سیج کر، انھیں حسین پھولوں کی شکل دے دیں۔ان ادھ کھلی کونپلوں کو مالی بن کر کھلنے میں امداد فراہم کریں،ان کے ذرخیز ذہنوں کو دنیاوی راز و رموز سے وافر ترواٹ مہیا کریں اور اپنے کردار و مثبت رویہ سے ان کے لیئے مشعل راہ بنیں۔یہ صرف اسی معاشرے میں ممکن ہے،جہاں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہو،وہ اعلی تعلیم کی بلندیوں پہ فائز ہوں اور معاشی آسودگی نے انھیں فکر و فاقہ کی بندشوں سے آزاد کر دیا ہو۔ہمارا نظام تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے،اساتذہ بچوں کو اپنے رعب و دبدبہ سے مرعوب کرتے ہیں اور درسگاہوں میں بچے خوف و ہراس کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ہنستے کھلکھلاتے،قلقاریاں مارتے بچوں کا فقدان نظر آتا ہے،ڈرے و سہمے ہوئے بچے،اپنے بھاری بھرکم بستے لیئے ادھر سے ادھر چلے جا رہے ہوتے ہیں۔ان کی آنکھیں بے نور،چہرے سوگوار اور قدم مضمحل ہوتے ہیں۔کتابی تعلیم کے ماسوا انھیں کچھ نہیں پتہ ہوتا،وہ رٹو طوطے بنا دیئے جاتے ہیں اور بنا سمجھے بوجھے الفاظ کی گردان کرتے رہتے ہیں۔یہ سارا کھیل تماشہ امتحان کا تقاضہ ہے،سالانہ امتحانات بچوں کے سامنے تلوار کی مانند لٹک رہے ہوتے ہیں اور اپنی گردن بچانے کا تیر بہدف نسخہ ،اساتذہ کرام کے بتائے ہوئے چند محدود الفاظ ہیں،جنھیں کاغذوں پہ منتقل کر کے گلو خلاصی ہو جاتی ہے۔
اس قسم کی ناقص تعلیم بچوں کی ذہنی پستگی کا باعث بنتی ہے،وہ اپنی دماغی صلاحیتیوں کو بروئے کار نہیں لاتے اور ان کے ذہنی خلیﺅں میں ہیجان نہیں برپا ہوتا۔ہمارے بزرگ فرمایا کرتے تھے،حرکت میں برکت ہے اور ہم اپنی فرسودہ تعلیم سے بچوں کے ذہنوں کو افیون دے کر سلا دیتے ہیں۔زندگی کے پہلے چند سالوں میں، دماغ میں معلومات جذب کرنے کی بے تحاشا صلاحیت ہوتی ہے اور ذہین و باشعور اساتذہ ہی ان ذہنوں کی آبیاری کر سکتے ہیں۔یہ صرف اسی وقت ممکن ہے،جب تیز ترار نوجوان استادی کا منصب سنبھالیں گے اور تعلیم و تربیت کی ترویج، ذوق و شوق سے قومی فریضہ سمجھ کر ادا کریں گے۔
ہمارے اساتذہ امتحانات کو ڈنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں،طالبعلموں سے وہ سوالات کیئے جاتے ہیں جو نہ پڑھائے گئے ہوں اور نہ ان کا زندگی سے کوئی تعلق ہو۔استاد اپنی ساری علمی قابلیت امتحان کا پرچہ بنانے میں صرف کرتے ہیں،کیا ہی اچھا ہوتا گر وہ سارے سال طلباءکو محنت سے تدریس کرتے اور پھر امتحان کے ذریعہ ان کی قابلیت جانچتے۔سالانہ امتحانات طلباء سے ایک بھونڈا مذاق ہے،طالبعلم کی قابلیت جانچنے کے بجائے،اس کی یاد کرنے کی صلاحیت جانچی جاتی ہے۔اس کی غور و فکر کی صلاحیت کے بجائے،اساتذہ کی گھونٹی ہوء تعلیم اور اسے دھرانے کی استعبداد دیکھی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں سالانہ امتحانات کا فرسودہ سلسلہ اپنی منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے، اس کی اہمیت و افادیت ختم ہو چکی اور اسے دفنا دیا گیا۔اس کے بجائے مختلف طریقوں سے طلباء کی قابلیت جانچی جاتی ہے۔نچلی جماعتوں میں اس کی بھی کوءضرورت لاحق نہیں ہوتی اور بچوں کو امتحان کے عذاب سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔اونچی جماعتوں میں اس کی افادیت مسلم ہے،پر طلباءکے سارے سال کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے اور اساتذہ کرام کی رائے بھی فعال گردانی جاتی ہے۔خدارا اس غلامانہ نظام تعلیم کے طوق کو اتاریں،اپنا نیا نظام بنائیں،جو بچوں کی تربیت کرے اور ہماری ملکی اثاث،تہذیب و تمدن اور دین کی عکاسی کرے۔ہم ایسے تعلیم یافتہ بچے پیدا کر سکیں جو معاشرے میں اپنا مثبت فعال کردار ادا کر سکیں،اسے مستحکم و طاقتور بنائیں اور ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ای پیپر دی نیشن