غازی ملت سردار ابراہیم اور تنازعہ کشمیر    

  چنار …پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی
mallotiriazasghar@gmail.com

جب غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی سیاسی و عسکری قیادت میں موجودہ خطہ آزادکشمیر آزاد ہوا تھا اور آپ 32سال کی عمر میں اس خطے کے بانی صدر بنے تھے تو نیم خود مختار ریاست آزادکشمیر کا تشخص بڑا مضبوط اور واضح تھا۔ اسے ہری سنگھ کی جانشین حکومت کا درجہ حاصل تھااسی وجہ سے ریاست کا نام آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر رکھا گیا۔صرف آزاد کشمیر حکومت نہیں بلکہ یہ باغی انقلابی حکومت ریاست کے مقبوضہ حصوں جموں اور وادی کشمیر کی بھی نمائندہ حکومت قرارپائی تھی۔ یہ خطہ ہمیں مذاکرات یا کسی معاہدے کے تحت حاصل نہیں ہوا بلکہ خون کی ندیاں بہانے کے بعد ہزاروں جانیں قربان کرنے کے بعد حاصل ہوا۔ 24اکتوبر 1947ءجہادِا زادی کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اور اقوام متحدہ کی جانب سے سیز فائر کرائے جانے اور رائے شماری کی قراردادیں منظور ہونے کے بعد ہم نے اس امید پہ 75سال گزار دئیے کہ ہمیں حق خود ارادیت دیا جائے گا اور وعدے کے مطابق کشمیریوں کی اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ بد قسمتی کہ ہر دن ہر ماہ اور ہر سال کے گزرنے کے ساتھ مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ ہوتا گیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے مستقل حل سے ہم دور ہوتے گئے۔ اگر مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کا اگر ہم بغور اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ پہلا قصورخود کشمیری قوم کا ہے جس کی قیادت میں اتفاق و اتحاد نہیں۔ قیادت 1947ءسے ہی تقسیم ہوگئی۔ شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے ایک دوسرے کے خلاف فیصلے کئے۔ شیخ عبداللہ نے عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ کرکے بھارت اور کانگرسی قیادت کا ساتھ دیا جس کی سزا گزشتہ 75سال سے قو م بھگت رہی ہے۔ آج بھی آر پار کشمیری قیادت میں نہ رابطہ ہے نہ اتفاق رائے ہے۔ دونوں طرف ھوس اقتدار کا کھیل تماشہ ہے۔ دوسری وجہ کشمیری قوم کا اللہ پر بھروسہ اور جہاد پر یقین کے بجائے پاکستان، اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ پر زیادہ بھروسہ رہا کہ یہ کشمیر آزاد کراکر دیں گے۔ تیسری وجہ کشمیری قوم کو جرا¿ت مند مخلص اور با صلاحیت قیادت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے قوم اپنی منزل نہیں پا سکی۔ چوتھی وجہ بتدریج پاکستان کا ہر لحاظ سے کمزور ہونا، عدم استحکام افراتفری اور معاشی بدحالی جس کی وجہ سے پاکستان اس پوزیشن میں ہی نہیں رہا کہ کشمیریوں کی آزادی میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ پانچویں وجہ بھارت میں استحکام، پالیسیوں میں تسلسل، مضبوط معیشت اور دنیا میں زیادہ اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ دنیا کا ہر ملک چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی اقتصادی روابط مضبوط رہیں۔ ان مفادات کی بنیاد پر دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کے 57آزاد و خود مختار ممالک نے کھل کر عملی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ چھٹی وجہ خطہ آزادکشمیر کی غلام قیادت ہے۔ آزادکشمیر آزادی کا بیس کیمپ تھا یہاں سے عملی جدوجہد کا آغاز ہوگا یہاں کی سیاسی و حکمران قیادت فرنٹ لائن پر آزادی کے لئے کردار نبھاتی مگر یہاں کی قیادت بتدریج سیاسی غلام بن گئی۔ پاکستان کی ذیلی جماعتوں کے یہاں قیام اورعمل دخل سے جملہ رہی سہی کسر ختم ہو گی۔ ریاستی جماعت مسلم کانفرنس اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے محدود، غیر مو¿ثر اور بے حال ہوگئی۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم، کے ایچ خورشید، مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، سردار خالد ابراہیم جیسے مخلص اور جاندار لوگ ہم سے جدا ہو گئے۔ آج کوئی بنی گالہ کا کوئی رائیونڈ کوئی لاڑکانہ کوئی منصورہ اور کوئی کہیں اورکوئی کہیں کا غلام ہے۔ کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاکستانی جماعتوں کے چھوٹے چھوٹے عہدیداروں اور گئے گزرے لوگوں کی سیاسی غلامی اور تابعداری کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ ھوس اقتدار میں ہم سب کچھ یہاں تک کہ کشمیر کے حوالے سے غیر منصفانہ اورناجائز فیصلہ بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں صرف ہمیں ساڑھے چار ہزار مربع میل اور دس اضلاع کی وزارت عظمیٰ یا بے اختیار صدارت مل جائے۔ مضمون کا آغاز ہم نے بانی صدر اور ریاست آزاد حکومت سے کیا تھا۔ یاد رکھیں غازی ملت کی قیادت میں اور مجاہدین کشمیر کی لازوال تاریخی قربانیوں کی بدولت ہم نے 24اکتوبر جو حکومت بنائی تھی۔ اس کی حیثیت بڑی مضبوط تھی۔ ایک تو آزادکشمیر کا فتح ہونے والا رقبہ 8ہزار مربع میل سے زیادہ تھا جو بروقت مجاہدین کی مدد نہ ہونے پر بھارت نے واپس ہم سے چھین لیا۔ وادی کشمیر سے پورا تحصیل اوڑی ضلعی ہیڈکوارٹر بارہمولہ تک اور سابقہ ریاست پونچھ کی تحصیل مینڈھر اور راجوری کا بڑا علاقہ ہمارے پاس تھا جو ہم سے بھارت نے واپس چھین لیا۔ ہجیرہ اور پھاگواٹی کے سر پر خاکی ٹیکری بھی بھارت نے ہم سے بہت بعد میں چھین لی۔ آزادکشمیر کی فورسز کی مدد نہیں کی گئی۔ غازی ملت نے جو حکومت قائم کی تھی جس ریاست کی بنیاد رکھی تھی ایک تو اس کا رقبہ زیادہ تھا دوسرا اپنی علیحدہ آزادکشمیر رجمنٹ فوج تھی جس کا اپنی آرمی چیف اور چیف آف جنرل سٹاف تھا۔ مکمل علیحدہ ریاست کا فوجی اور دفاعی سیٹ اپ تھا۔ کابینہ میں اپنا آزادکشمیر کا وزیر دفاع تھا۔ وار کونسل تھی۔ فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے اپنے دور اقتدار میں ہماری علیحدہ آرمی کی حیثیت ختم کی اور اپنا وزیر دفاع بھی نہ رہا۔ وزارت امور کشمیر نے آغاز دن سے آزادکشمیر میں حکومت و سیاست کے حوالے سے سازشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جس سے سب سے زیادہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا۔ 1948-49میں کشمیر افیئر والوں نے غازی ملت اور چوہدری غلام عباس کے درمیان نفاق پیدا کرایا۔ غازی ملت کو بلا وجہ اس وقت اقتدار سے علیحدہ کیا جب آپ مسئلہ اجاگر کرنے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے دورے پر تھے۔۔ اس غلط فیصلے کے خلاف خطہ میں شدید عوامی رد عمل ہوالوگوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی سید علی احمد شاہ میر واعظ یوسف شاہ اور پھر کرنل شیر احمد کو اقتدار سونپا گیا مگر بغاوت عروج پر پہنچ گئی۔ عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرائی گئی جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ بیس کیمپ جہاد آزادی اور کشمیر کی آزادی بھول کر باہمی دست و گریباں ہوگئے۔ بدقسمتی کہ کشمیر افیئر وزارت کی جانب سے سازشوں کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے آج یہی وزارت حکمرانوں کی ایماء پر تقسیم کشمیر کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے کبھی آزادکشمیر کی آئینی حیثیت کے لئے 15ویں ترمیم اور کبھی آزادکشمیر کو صوبائی طرز پر سیٹ اپ دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان سازشوں میں ہم بطور آلہ کار استعمال ہو رہے ہیں۔ باری باری سارے استعمال ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں خدارا ان سازشوں کو ختم کرو اگر کشمیر کی آزادی کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تو اس کی متنازعہ حیثیت کو ہی برقرار رکھو غلط فیصلوں کی طرف جانے کی کوشش نہ کرو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کی بے پناہ سیاسی عسکری اور حکومتی خدمات ہیں آپ کی مخلصانہ جدوجہد سے یہ خطہ آزادا ہوا۔ نا مساعد حالات میں آپ نے قیادت کی اور ڈوگرہ سامراج اور بھارتی بربریت کا مقابلہ کیا قوم آپ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی آپ ایک سچے کھرے دلیر معاملہ فہم صاف گو دیانتدار اور نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے کبھی کسی کی چاپلوسی اور جی حضوری نہیں کی خود داری غیرت و حمیت کے ساتھ با وقار سیاست کی۔ اس دور کے بار ایٹ لاءتھے بیوی بچوں کو سرینگر میں بے یار و مددگار چھوڑ کر وارنٹ گرفتاری کے باوجود مری آکر خفیہ ہیڈ کوارٹر بنا کر جہاد آزادی کا آغاز کیا خطے کو سیکٹرز اور سب سیکٹرز میں تقسیم کرکے کمانڈر مقرر کئے مجاہدین کے لئے اسلحہ مہیا کیا پھر جب کوئی تیار نہیں ہو رہا تھا آپ نے 24اکتوبر 1947ءبانی حکومت کی حیثیت سے ریاست و حکومت قائم کی سب ادارے قائم کئے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اجاگر کیا۔ 19جولائی 1947ءآپ کی کوششوں سے الحاق پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی۔ 31جولائی 2003ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی عظیم خدمات پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطائ فرمائیں۔ آمین۔

پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی

ای پیپر دی نیشن