طلبہ اور عوام کا احتجاج کامیاب، حسینہ واجد بھارت فرار
دیکھ لیں پاکستان کو توڑنے کی سازش میں شریک لوگوں کے خاندانوں کے لیے زمین بھی تنگ پڑ رہی ہے کہ انہیں ان کے مربی بھارت کے سوا کوئی گلے لگانے کو تیارنہیں۔ اندراگاندھی، بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کا گھرانہ ابھی تک مکافات عمل کا شکار ہے جو اب اپنے ہی ملک میں بھی نہیں ملتا۔ گزشتہ روز جس طرح بنگالی عوام نے بنگلہ دیش کے بانی جسے وہ بنگو بندھو کہتے ہیں، کو عرش سے اٹھا کر فرش پر لا پٹخا اس کے مجسمے سرعام توڑے گئے۔ اس سے اندراگاندھی کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی جس نے 1971ءمیں کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ گزشتہ روز دیکھ لیں بھارت کے پالتو کی آخری نشانیاں بھی خواہ اس کے مجسمے کی شکل میں ہوں یا حسینہ واجد کی شکل میں، بنگلہ دیش کی سرزمین پر رہنے نہیں دیں۔ اب وہ لوگ جو شیخ مجیب کو اپنا ہیرو آئیڈیل ماننے کے دعویدار ہیں ملک دشمن کے اس انجام پر کیا یوٹرن لیں گے۔ بنگلہ دیش میں اس انقلاب یا تبدیلی سے گرچہ ہم پاکستانیوں پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ بقول فیض
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
بھارت اور ملک دشمن عناصر نے وہاں جو آگ لگائی تھی اس کو ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا۔ کیا معلوم آنے والے کس قسم کے خیالات رکھتے ہوں۔ خدا کرے اب دو برادر ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں مگر بھارت ایسا ہونے نہیں دے گا۔ اب اسے دیکھ لیں قدرت کا انتقام کہ ایک نہیں دو مسلم ریاستوں کا سامنا کرنے پڑے گا کیونکہ اب بنگلہ دیش بھارت کے دباﺅتلے آنے والا نہیں۔ یوں قائد اعظم کا برصغیر میں علیحدہ وطن کا قیام ان کی دانش و فراست اور خلوص نیت کے ساتھ انتھک محنت اور عوام کی حمایت کے بدولت ہی ممکن ہوا۔ بڑے بڑے قوم پرست اور مذہبی مہاتمے ان کے سامنے ٹک نہ سکے اور زمین بوس ہو گئے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
قیدی نمبر 804کی جیل میں پہلی سال گرہ۔
ایک سال سے جو بندہ جیل میں قید ہو اس کے لیے سالگرہ کی کیا اہمیت ہو گی۔
پی ٹی آئی والوں نے اپنے بانی کی گرفتاری کا سال مکمل ہونے پر مختلف شہروں میں احتجاجی جلسہ کر کے جلوس نکال کر انہیں ”شردھا نجلی“ پیش کی۔ مقررین ان کے حوصلے کی داد دیتے رہے کہ وہ جس طرح عوام کے لیے سختیاں جھیل رہے ہیں اس کا صلہ یا جواب یہی ہے کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ تمام جھوٹے سچے الزامات سے بری کر کے جیل سے سیدھا وزیر اعظم ہاﺅس لے جا کر دوبارہ حکومت دی جائے۔ اب یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ بنی گالہ کی طرح جیل سے بذریعہ ہیلی کاپٹر ایوان وزیر اعظم جائیں گے یا بذریعہ گاڑی۔ ویسے اس کا فیصلہ تو وہ نہیں کریں گے۔ وہ لوگ کریں گے جن سے آج کل بانی اپیل کر رہے ہیں کہ انہیں دوبارہ پردھان منتری بنا دیا جائے۔ یوں ستے خیراں ہوں گی اور ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور بانی باہر آ کر ایک بار پھر کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ سب چور ہیں کوئی خزانہ لوٹ رہا ہے کوئی ڈیزل چوری کر رہا ہے جو چپڑاسی بننے کے قابل نہیں تھے وہ وزیر بن گئے ہیں۔ کا بیانیہ یہی رہے گا یا بدل جائے گا۔یہ باتیں وہ کب سے کہہ رہے ہیں۔ اب خدا جانے ان کو پکڑنے والے انہیں چھوڑیں گے یا نہیں۔ وہ کسی دوسرے کونہ چھوڑنے کی باتیں کرتے تھے اب ان کو کون چھوڑے۔ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے جبکہ پی ٹی آئی والے تو امیدوں کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں۔کہ
گلووں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آﺅکہ گلشن کا کاروبار چلے
سو اب سیاسی پنڈتوں کی ”پیشینگوئی کے مطابق اگست تک بانی باہر اور حکومت اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہو گی۔ اگر ایسا ہے تو دیکھتے ہیں پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں کون قدم رنجہ فرماتا ہے۔ کن کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔
بجلی کی قیمت میں کمی کے معاملہ پر اویس لغاری اور گو ہر اعجاز کے متضاد بیانات۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری اور سابق وزیر گوہر اعجاز کے درمیان بجلی کے نرخوں کے حوالے سے عوام کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے جو مقابلہ بیت بازی جاری ہے ، اس کو براہ راست میڈیا نشر کر رہا ہے اور لوگ اس سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ نکالنا ضروری ہے۔ اس لیے انہیں میڈیا میں سب کے سامنے بٹھا کر امریکی صدارتی مباحثہ کی طرح ایک مباحثہ کرایا جائے اور جب تک فیصلہ نہ ہو انہیں اٹھنے نہ دیا جائے کے فاتح کون ہے۔ کیونکہ یہ دونوں نجلی بجلی گھروں، ان کی پیداوار اور اخراجات کی ادائیگی کے حوالے سے اپنے اپنے موقف کو درست قرار دے رہے ہیں۔ اویس لغاری تو بجلی کے بلوں کی مدد سے آئی پیز کی تجوریاں بھرنے کے حق میں ہیں۔ عوام کو رعایت ملے نہ ملے ان کا خون نچوڑ کر ان بجلی گھر مالکان کا پیٹ بھرنے کو مجبوری بتا رہے ہیں کیونکہ وہ معاہدوں کے پابند ہیں۔ اس کے برعکس گوہر اعجاز بتاتے ہیں کہ یہ بجلی گھر بجلی بنائیں نہ بنائیں یعنی ان کی پیداوار صفر بھی ہو تو بھی یہ پیسے پوری کپیسٹی کے یعنی پیداوار کے مطابق لیتے ہیں کہ ہم اتنی بجلی بنا سکتے ہیں۔ یہ بجلی گھر پاکستان کو درکار بجلی سے زیادہ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس حساب سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ ان کو پیداوار کے حساب سے پیسے دئیے جائیں اور بلوں پر ناروا ٹیکس ختم کئے جائیں، اب دیکھنا ہے اس مقابلہ حسن نیت میں کون کامیاب ہوتا ہے۔ عوام تو بجلی کے بلوں کی وجہ سے نکونک آ چکے ہیں اب کہیں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق اگر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو پھر کہیں وہ سڑکوں پر دھمال ڈالتے نظر نہ آنے لگیں۔ پھر نہ یہ نجی بجلی گھر رہیں گے نہ ناروا ٹیکس لگانے والے۔ یوں ”سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا“ اس وقت سے پہلے ہی یہ ظالمانہ معاہدے کرنے والوں کو بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے تو زیادہ بہتر ہے
ایران سے روزانہ 50 سے 60 لاکھ لٹر تیل سمگل ہو کر پاکستان آتا ہے۔
اب بدقسمتی سے ایران کے بارڈر کے ساتھ لگنے والے یہ تمام علاقے بنجر بے آب و گیا ہیں۔ صدیوں سے یہ لوگ ایرانی علاقے سے تجارت کرتے ہیں۔ وقت بدلا تو تیل نے عالمی معیشت میں اہمیت حاصل کی۔ اب یہ لوگ بھی اس کالے سونے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سمندری اور خشکی دونوں راستوں سے نہایت جان جوکھم سفر کر کے یہ تیل پاکستان لایا جاتا ہے۔ ایران تیل سے مالا مال ہے اسے اس کی سمگلنگ سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ تیل اگر ایمانداری سے پاکستانی حکومت ریگولیٹ کرے اور صرف پی ایس او کے پٹرول پمپوں پر فروخت کرے تو اس کی قیمت بمشکل 100 روپے فی لٹر تک ہو گی اور یہ نقصان عالمی تیل کمپنیوں کو گوارہ نہیں، نقصان پاکستانی عوام کا ہے۔ قومی خزانے کو ایک بڑے نقصان سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران عالمی منڈی میں تیل فروخت نہیں کر سکتا تو وہ پاکستانی خریداروں سے ڈالروں کی شکل رقم لیتے ہیں۔ اس طرح لاکھوں ڈالر ہر ماہ پاکستان سے ایران منتقل ہو رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے اور پاکستان میں ڈالر آسمان پر جا پہنچا ہے۔ جب سمگلر جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کر رہے ہیں تو پاکستانی حکومت بھی دل بڑا کرے اور تیل کی اس آمدورفت کو مناسب قانونی شکل دے اور ساتھ ہی ایران سے گیس لانے والی پائپ لائن کو بھی مکمل کرے تاکہ تیل کے ساتھ گیس کا بحران بھی کم ہو۔ امریکہ نے اپنے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کا کیا بگاڑ لیا جو ہم اس سے ڈریں۔