لاپتہ افراد کا لایعنی ایشو

Aug 07, 2024

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

میں ریاست کو یہ حق دینے کے لیے تیار ہوں کہ وہ ملکی سلامتی اور عوامی تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر سکتی ہے۔اس لحاظ سے لا پتہ افراد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ،ایک وہ جو اپنی مرضی سے ماں باپ بچوں اور گھر بار کو چھوڑ کر غائب ہو جائے۔ دوسرے وہ جنہیں عوامی مفاد میں پولیس کے حکام تفتیش کے لیے گھروں سے اٹھا لیں۔ تیسرے وہ ، جو ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں ،دہشت گردی میں ملوث ہوں اور مکتی باہنی کا کردار ادا کرتے ہوئے ہتھیار اٹھا لیں تو فوج سمیت تمام سکیورٹی انٹیلی جنس ادارے انہیں اپنی تحویل میں لے لیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں ان تمام لوگوں کو گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔مجھے کوئی بتائے کہ کیا فلسطین، کشمیر،برما اور افغانستان میں جہاد کی خاطر جانے والے نوجوان کبھی اپنے گھر والوں کو اطلاع دے کر غائب ہوتے ہیں کہ وہ مشن پر جا رہے ہیں۔ان میں سے اکثر لوگوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہیں۔ 
میں ایک نوجوان کو تو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایک دینی سیاسی جماعت کے راہنما نے دو مرتبہ غائبانہ جنازہ پڑھایا مگروہ بالآخر کئی سالوں بعدواپس گھر پہنچ گیا۔میں نے اس نوجوان کو لاہور میں اپنے ہاں مدعو کیا اور اس سے اس کی ساری کہانی جاننے کی کوشش کی۔اس نے بتایا کہ وہ کشمیر میں اپنی مرضی سے جہاد کے لیے گیا تھا ،وہاں ایک خودکش دھماکے میں وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس کے چہرے کے ایک طرف سے گوشت اڑ گیا۔اس کے ساتھیوں نے اسے علاج کے لیے ہسپتال داخل کرا دیا مگر وہاں بھارتی فوج اس کے سر پر پہنچ گئی اور اسے گرفتار کرکے فیروزپور جیل میں ڈال دیا گیا۔فیروزپور جیل اور پاکستان میں اس کے گاﺅں کا فاصلہ چھ،آٹھ میل سے زیادہ نہیں ہے۔بہرحال وہ سزا مکمل ہونے پر رہا کر دیا گیا اور اسے بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔کیا آپ اس نوجوان کو لاپتہ فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔میرا ایک رشتہ دار گھر سے غائب ہو گیا،اس کے بھائیوں کو کہیں سے اطلاع ملی کہ وہ مظفر آباد سے آگے کسی لانچنگ پیڈ میں زیر تربیت ہے ،اس کے بھائی سراغ لگاتے ہوئے لانچنگ پیڈ تک پہنچے اور اسے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال کر واپس لائے۔آج وہ ایک ہنستے بستے گھرانے کا سربراہ ہے۔
میں ایک بار دو معصوم بچوں کو ان کے لاپتہ باپ سے ملوانے کے لیے سرگرداں تھا۔پھرتے پھراتے ہم ایک مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے گئے، یہ عید کا دن تھا ،مسجد کا صحن اور اس کے کمروں میں اس روز بھی سینکڑوں نوجوان موجود تھے۔میں نے ان نوجوانوں سے پوچھا ،وہ اپنے ماں باپ کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے گھروں میں کیوں نہیں گئے ،ان کا جواب تھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں جو ان کی تنظیم نے ان پر عائد کر رکھی ہے اور یہ ماں باپ کے ساتھ عید منانے سے زیادہ اہم فریضہ ہے۔میں یہ سن کر ششدر رہ گیا۔
 نائن الیون واقعے کے فوری بعد میں نے افغان سفیر ملا ضعیف کا انٹرویو کیا ،اس دوران الطاف حسن قریشی،مجیب الرحمن شامی اور ضیاءشاہد مرحوم بھی وہاں موجود تھے۔سفیر موصوف سے سوال کیا گیا کہ آپ کے ملک نے ہمارے ہزاروں سنگین جرائم میں مبتلا لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے ،ان کے گھر والوں اور بال بچوں کو ان کی خیریت کی کوئی اطلاع نہیں،وہ پریشان حال اپنی تقدیر پر شاکر ہیں مگر کیا آپ کا یہ فرض نہیں بنتا کہ آپ ہمارے ان بھگوڑوں کو ہمارے حوالے کردیں۔سفیر صاحب نے بڑے سادہ لہجے میں جواب دیا ،ہم تو آپ کے لوگوں کو نہیں پہچانتے ، آپ لوگ جائیں اورانہیں وہاں سے لے آئیں۔میرا آپ سے سوال بنتا ہے کہ کیا ان لوگو ں کو لاپتہ افرادشمار کیا جا سکتا ہے؟
ہمارے گوئبلز کو بلوچستان،سندھ اور فاٹا کے نام نہاد لاپتہ افراد کی فکر لاحق رہتی ہے، بہر حال حکومت پاکستان نے ان لا پتہ افراد کے خاندانوں کے لیے بہت بڑا امدادی پیکج منظور کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو پوری نیک نیتی سے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس پیکیج سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ حکومت کا لاپتہ افراد کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہے،اسی طرح ہمارے فوجی اور سکیورٹی اداروں نے اس حکومتی پیکج کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ انہیں اب تک عبث بدنام کیا جاتا رہا ہے۔اگر کسی کا بھائی یا بیٹا گھر سے غائب ہوا ہے اور اس نے اپنے بیوی بچوں کو لا وارث چھوڑ دیا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے جس کے لئے حکومت اور ریاست کو مورد ِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔جہاں تک ملکی سلامتی اور عوامی مفاد کے تحفظ کا سوال ہے تو اس کے لیے نہ صرف امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی قوانین کے تحت بلکہ آئین پاکستان کی کئی شقوں کے تحت سکیورٹی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ فعال اور سرگرم طریقے سے اپنا کردار ادا کریں اور دشنام طرازی کی کسی مہم کو خاطر میں نہ لائیں۔
میں اپنے ملک کے گوئبلز کے چیلوں چانٹوں سے پوچھتا ہوں کہ چند روز پہلے اسرائیل نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایک شارٹ رینج میزائل کا نشانہ بنا کر شہید کیاتو کیا یہ کسی کو لاپتہ کرنے سے بڑا جنگی جرم نہیں۔چند برس قبل لاٹ صاحب بہادر صدر امریکہ اوباما نے آدھی رات کو ہمارے ملک پاکستان کے ایک شہر ایبٹ آباد میں ہیلی کاپٹر اتارے اوردعویٰ کیا کہ اس نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو شہید کردیا ہے اور اس کی لاش لے جاکر سمندر میں پھینک دی ہے۔ مگر کسے پتہ ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کو زندہ گرفتار کرکے اپنے ہاں لے گیا ہو اور وہ ڈاکٹر عافیہ کی طرح کسی امریکی جیل میں ٹارچر کا نشانہ بن رہا ہو۔ میں اپنے ملک کے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں سے پوچھتا ہوں کہ صدر اوباما کو کس نے اجازت دی کہ وہ اسامہ بن لادن کو لاپتہ کرے۔ 
میں ایک بار پھر اپنی غیور اور محب وطن مسلح افواج کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اس نے کمال صبر اور حوصلے سے اپنے خلاف طاغوتی مہم کو برداشت کیا ،اس کے لیے ہر کوئی اسے داد دے گا۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ،انہوں نے ایک لایعنی ایشو پر فیصلہ دے کر بیک جنبش قلم جھٹکا کر دیا ہے۔

مزیدخبریں