مہنگائی کے عفریت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ ایسا سونامی ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اب اس سے متاثر ہیں۔ کوئی نہیں، جو بڑھتی ہوئی اس مہنگائی سے دل گرفتہ اور پریشان نہ ہو۔ کورونا کے بعد تو حالات اور بھی خراب اور دگرگوں ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو ترقی پذیر کہلاتے ہیں۔ جہاں آبادی کے لحاظ سے مسائل بھی ڈھیروں کے حساب سے موجود ہیں۔
پاکستان میں اشیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریب اور مڈل کلاس طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یہی نہیں، اپر کلاس طبقہ بھی اس سے متاثر ہے۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے صنعتوں کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور قریباً اس کا پہیہ جام ہو گیا ہے جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مزدور کے چولہے جلنا بند ہوگئے ہیں۔ پوش علاقوں میں رہنے والے بھی اس مہنگائی کے ہاتھوں بے چین اور مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ اخبارات اور دیگر میڈیا ہاﺅسز کا بھی یہی حال ہے جہاں سے کارکن نکالے جارہے ہیں کیونکہ ان اداروں کے لیے کارکنوں کو تنخواہیں دینا مشکل ہوگیا ہے۔ جو لوگ نوکری پیشہ ہیں وہ اب دوسری نوکری کی تلاش میں ہیں تاکہ بچوں کو دو وقت کی روٹی دے سکیں۔
خبریں یہ بھی ہیں کہ لوگوں کی اکثریت اب ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ روزگار کی تلاش میں عدم ملک ہورہی ہے، تاکہ مغرب یا عرب ممالک میں روزگار کا کوئی وسیلہ مل سکے۔ بے اطمینانی اور بے سکونی کی ایسے لہر ہے جس کا احاطہ لفظوں سے کرنا ممکن نہیں۔ میڈیا پر اکثر وزیر خزانہ کے منہ سے” زر مبادلہ“ کا لفظ ان کی تقریر یا میڈیا بریفنگ میں سنتے ہیں۔ زرمبادلہ ہے کیا؟ اس سے کیا مراد ہے؟ وہ شرح جس پر ملک کے زرمبادلہ کو دوسرے ملک کے زرمبادلہ کے ساتھ تبدیل کیا جائے، زرمبادلہ کہلاتی ہے۔ عموماً یہ شرح تبادلہ امریکی ڈالر کے ساتھ کی جاتی ہے۔
دنیا میں معاشی نظام چلانے کے لیے ایک کلیہ، ایک طریقہ کار موجود ہے۔ دنیا جو ایک دوسرے کے ساتھ امپورٹ، ایکسپورٹ کے ذریعے جڑی ہوئی ہے۔ اسی سے دنیا کا معاشی نظام چلتا ہے اور زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ امپورٹ، ایکسپورٹ دنیا میں تجارت کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر ملک اس پر توجہ دیتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح بھی ”تجارتی“ محاذ پر دنیا سے پیچھے نہ رہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ یعنی برآمد کئی ارب ڈالر پر محیط ہے۔ اس طرح اربوں کی امپورٹ بھی ہوتی ہے۔ ملک میں روزگار کے لیے کارخانے او ر فیکٹریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو نجی سیکٹر کے تحت ملکی معاشی حالات کو مضبوط تر کرنے میں اپنا حصّہ ڈال رہی ہوتی ہیں۔ مگر ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی و سیاسی حالات باقی شعبوں کی طرح ان پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس سے عام آدمی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ اچھی تنخواہ کے باوجود آج لوگوں کو دوسری نوکری کرنی پڑ رہی ہے۔
موجودہ حکومت کو آئے اگرچہ 6 ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ حکومت ایسا کچھ نہیں کر پائی کہ لوگ اسے تحسین کے کچھ اچھے الفاظ سے نواز سکیں۔ پندرہ، بیس ہزار کمانے والا بھی مشکل میں ہے، جو پچاس ساٹھ ہزار تک کما لیتا ہے حالات اس کے بھی بس میں نہیں۔ لوگ مہنگائی کا ذمہ دار مس مینجمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ حکومت چاہتی تو ہے کہ مہنگائی میں عوام کو ریلیف دیں لیکن یہ ان کے بس میں نظر نہیں آتا کیونکہ آئی ایم ایف نے اربوں ڈالر ”لون“ کے لیے جو شرائط عائد کر رکھی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ بجلی، پٹرول اور گیس کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمتیں بھی بڑھائی جائیں گی۔
یہ کیسا ملک ہے؟ جس میں نہ داد رسی ہے، نا انصاف ملتا ہے نہ ہی کسی چیز پر حکومتی کنٹرول ہے۔ کہتے ہیں سیاسی عدم استحکام ہو، تو معاشی استحکام کبھی نہیں آتا۔ ہم بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔ سیاست میں جو بگاڑ آیا ہے اس میں آئندہ کئی برسوں تک سدھار کی توقع نہیں۔ تو کیا ہمارا معاشی نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ یا اس میں کوئی بہتری یا ٹھہراﺅ بھی آئے گا؟ ہم ایسے زمانے سے گزر رہے ہیں جس میں کوئی ایسا نہیں جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو، مہنگائی اب بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ دنیا کے سبھی ملکوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں میں روز بروز اصافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ فطری امر بھی ہے۔ کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، چیزوں کی پیداوار میں اس تیزی سے اضافہ نہیں ہوا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کے خواہش مند یا طلبگار زیادہ ہو جائیں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔
پاکستان آزادی ملنے کے بعد سے اپنی ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن ہماری ترقی کے سب منصوبے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں انتہا پسندی اور شدت پسندی آتی جا رہی ہے۔ نسبتاً دیگر صوبوں کے بلوچستان کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ اگرچہ ”چاغی“ کے پہاڑں میں سونے، تانبے اور لوہے کے لامحدود ذخائر ہیں۔ دیگر قدرتی معدنیا ت سے بھی بلوچستان بھرا پڑا ہے۔ تیل کے ذخائر بھی یہاں وافر مقدار میںموجود ہیں۔ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود بلوچستان سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ اب سڑکوں پر ہیں۔ حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ بلوچستان لا پتا افراد کے مسئلے سے بھی دوچار ہے۔ بے شمار لوگ کئی کئی سال سے لا پتا ہیں۔ عدالتوں میں بلوچستان کے لا پتا افراد کی بازیابی کے لیے رٹ پٹیشنز دائر ہوتی ہیں جس کا عدالتیں نوٹس لیتی ہیں۔ حکومت اور اداروں کے ذمہ داران کو بھی عدالتوں میں بلایا جاتا ہے لیکن ان سب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ لا پتا افراد کے بارے کچھ نہیں جانتے۔ ”لا پتا“ افراد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ کوئی شخص یا حکومت یہ بتانے کے لیے تیار نہیں جس سے بلوچستان میں اضطراب، بیزاری اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔
بلوچستان اگرچہ قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اس کے باوجود یہاں انتہا کی پسماندگی ہے۔ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علمی شعور نہیں ہو گا، صنعتیں اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جائیں گے تو ہم بلوچوں کے رویوں میں بدلاﺅ کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ سب کا حق بنتا ہے کہ یہاں رہنے والا ہر شخص بہتر اور آسودہ زندگی گزارے۔ کسی بھی محرومی کا شکار نہ ہو۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان پر زیادہ توجہ دے کہ وہ زیادہ پسماندہ اور ہر طرح کی سہولتوں سے محروم ہے۔ وہاں کے قبائل باغی ہو کر اسلحے سمیت پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔
جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے وہ تو ختم نہیں ہوسکتی کہ یہ اب ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ کوئی تو اس کا حل ہوگا؟ کیونکہ جو بھی دنیا میں آیا ہے اس نے جینا تو ہے۔ اسے بنیادی ضروریات زندگی درکار ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے۔ ملک کو اگرچہ نئی سڑکوں اور نئی ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت روزگار کی ہے۔ جب تک تجارت اور روزگار کے نئے مواقع تلاش نہیں کیے جاتے، ہمارے حالات میں بہتری نہیں آسکی۔ کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے مضبوط معیشت انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے ہمیں اب اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر ملک سنوارنا ہے۔ اس کے لیے سنجیدہ ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا۔
سیاست میں نفرتوں کی آگ جل رہی ہے۔ کدورتوں کا عفریت سر اٹھائے ہوئے ہے جس نے ہمیں دنیا سے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ نوجوانوں نے ہر فیلڈ میں ثابت کیا ہے کہ ان جیسا کوئی نہیں۔ کمی ہے تو صرف جذبے اور رہنمائی کی ہے۔ سیدھی راہ کے مسافر بن گئے تو بہت کچھ حاصل ہوگا۔ دنیا کی اقوام میں ہمارا نام بھی ایک باوقار قوم کی طرح نمایاں نظر آئے گا۔ ایٹمی قوت تو بن گئے لیکن خود کو ایک قوم نہیں کرسکے۔ سیاست میں نفرتوں کی آگ بجھانی ضروری ہوگئی ہے تاکہ منزل مل سکے۔ ہماری نسلیں ایک خوشحال پاکستان کی تعبیر کو آنے والے دنوں اور برسوں میں پورا ہوتے دیکھ سکیں۔