بسا اوقات سوشل میڈیا پر اتنی معنی خیز اور دلچسپ پوسٹیں آپکی نظروں کے سامنے اتی ہیں کہ ان سے صرفِ نظر کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور راقم کا یہ معمول ہے کہ ایسی تحریریں جنھیں بنیاد بنا کر عوامی مفاد کا کوئی بھی پہلو اجاگر ہوتا ہو جب بھی سامنے آتی ہیں تو یہ خاکسار ارباب اختیار کی توجہ کے لیئے اپنے کالموں میں انھیں منقول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جس دوست کی وال سے اسے اٹھاتا ہوں اسکا نام ضرور لکھتا ہوں۔ اور پیشہ وارانہ دیانت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جسکا کریڈٹ ہو اسے ہی ملنا چاہیئے۔ لہٰذا آج جن کی وال پر پوسٹ تحریر اٹھا کر منقول کر رہا ہوں انکا نام میاں یاسین ہے۔
ساون کی گھنگور گھٹاو¿ں اور دلوں پر نقش ہوجانے والے رنگوں کے اس دلنشین موسم میں نجانے پت جھڑ کے موسم کی ویرانیوں کی طرح اداسیوں نے کچھ اسطرح ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ لگتا ہے اب شائد ہی میرے اس ملک کی عوام کے چہروں پر کبھی بہار کے رنگ بکھر سکیں۔ بے دلی کی ان سیاہ گھٹاو¿ں میں ملاحظہ فرمائیے یہ تحریر۔ "کہتے ہیں کہ کسی دور افتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آو¿ بھگت ہوئی۔ گاو¿ں کا گاو¿ں اس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ”آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟ میزبانوں نے کہا: ”بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں۔ مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے مدارت نہ کی جاتی ہو۔ اس نے پھر تفتیش کی: پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟ میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ”اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے“ مہمان نے دل میں سوچا: ”بے خطر کیسے کھاو¿ں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے“ پھر اس نے اعلان کردیا: ”جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاو¿ں گا“ اب تو پورے گاو¿ں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ گاو¿ں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے: ”ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا؟ اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے“ ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکار تھا۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا اور انہوں نے بھی اعتراض کیا: ”ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے“ مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دی گئی۔ گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔
اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔ مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاو¿ں کا ایک ایسا بزرگ ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر 99سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ”ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے“۔
دوستو اس قصے کی گہرائی میں جائیں اور ماضی کے بند کواڑ کھولتے ہوئے ساٹھ کی دہائی میں جھانکیں تو یہی لگے گا کہ آئی ایم ایف نے منت ترلے سے اس مملکت خدا داد پاکستان کو جو پہلا قرض دیا تھا اسکی توجیہات کچھ اسی طرح بیان کی گئی تھیں کہ اس قرض کی نوعیت بالکل اس ٹوتھ پک جیسی ہے جو دانتوں کے ریخوں میں پھنسے گوشت کے ریشوں کو نکالنے کے لیئے استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ ٹوتھ پک جو پہلے صرف ایک تنکے کی مانند تھی اور جسکا مقصد عمومی مالی آسودگی کی فراہمی تھا وقت کے ساتھ ساتھ اسکا سائز بڑھتے بڑھتے اب ایک ڈنڈے کی صورت اختیار کر چکا اور اسکا صحیح استعمال کہاں ہو رہا ہے راقم کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی پیشہ وارانہ ذمہ داری اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ ہماری بدنصیبی کی انتہاء دیکھیں کہ نہ ہی ہماری سیاسی اشرافیہ اور نہ ہی اہل دانش یا اہل فکر نے اس طرف کوئی توجہ دی کہ عوام کے لیئے یہ ٹوتھ پک جس کا سائز تنکے سے بڑھکر ڈنڈے کی شکل اختیار کر رہا ہے استعمال کہاں کی جائے گی۔ اور عبرت کا مقام یہ ہے کہ ہم عوام بھی بذات خود اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔