ہم لوگ واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے ان سے انٹرٹینمنٹ کے پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کو شغل میں لیتے ہیں۔ 1988ءمیں دریائے راوی میں خوفناک سیلاب آیا، پانی بند روڈ کی سڑک کو چھو رہا تھا، راوی کے پل کے کناروں سے ٹکریں مار کر گزر رہا تھا، منہ زور پانی جانوروں درختوں مال اسباب اور کئی انسانوں کو بھی بہا کر لے جا رہا تھا، دریا پار کے تمام علاقے ڈوب چکے تھے اور لاہوریے کھانے پکا کر راوی پل پر پکنک منانے جاتے تھے۔ لوگوں کا رش تباہ کاریوں کا نظارہ دیکھ رہا ہوتا تھا۔ آخر کار پولیس کو کئی بار ڈنڈے مار کر رش ختم کروانا پڑتا تھا۔ بنگلہ دیش میں چند لمحے پہلے تخت نشین حسینہ چند لمحوں بعد فرار ہوتی ہوئی دیکھی گئی۔ اس واقعہ کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اور اس سے سبق سیکھنے کی بجائے سوشل میڈیا پر تماشہ لگایا ہوا ہے۔ عوام کی وزیر اعظم ہاو¿س اور پارلیمنٹ میں گھس کر لوٹ مار اور لوگوں کو لوٹ مار کرکے چیزیں لے جاتے دیکھنا ہمارا محبوب مشغلہ بنا ہوا ہے۔ کسی نے سوچا کہ جو خاتون کل تک سیاہ وسفید کی مالک بنی ہوئی تھی وہ آج اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ راستے کی بھیک مانگ رہی تھی۔ جہاں اس کے ایک اشارہ ابرو پر حکم بجا لانے والے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے تھے، اس پورے ملک میں اسے پناہ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی کو کہتے ہیں وہ ذات باری تعالی جب چاہے لمحوں میں تحت سے تختہ کر دے جو لوگ آج اپنے اختیارات کے نشہ میں انسانیت بھلا چکے ہیں ان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اعتدال اور انصاف ہی دیرپا ہے اور انتہا پسندی کا یہی انجام ہوتا ہے۔
حسینہ واجد نے ساری زندگی اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ وہ 2009ءسے وزیراعظم چلی آرہی تھیں اور اس سال چوتھی بار وزیر اعظم بنی تھیں۔ اس سال کے آغاز میں ہونے والے انتخابات میں تو اس نے کمال ہی کر دیا۔ چن چن کر اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ کچھ کو مروا دیا کچھ کو ناجائز مقدمات میں جیل بجھوا دیا۔ کچھ کو من پسند عدالتوں سے سزائیں دلوا دیں اور اپوزیشن کا سانس لینا مشکل کر دیا۔ پری پول رگنگ کے اقدامات سے اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا پولیس حسینہ واجد کے حکم کو قانون سمجھ کر مخالفین کو سبق سکھانے کا فرض ادا کر رہی تھی۔ 80، 80 سال کے بزرگوں کو پاکستانی فوج سے تعاون کرنے کے الزام میں پھانسیوں پر لٹکایا گیا۔ پولیس کو ذاتی لونڈی بنا لیا گیا۔ عدالتوں میں مرضی کے جج لگا کر حکم بجا لانے والی عدلیہ بنا لیا۔ پہلے والد کے کزن کو آرمی چیف بنایا پھر اس کی ریٹائرمنٹ پر اس کے داماد کو آرمی چیف بنایا لیکن ظلم جب ایک حد سے بڑھ جائے تو لوگوں میں بغاوت کو ہوا دیتا ہے۔ جب عوام آپے سے باہر ہو گئے تو پھر ان کے راستے میں کوئی بھی نہ ٹھر سکا۔ نہ پولیس کی گولیاں کام آئیں نہ عدالتوں کامٹی پاو¿ فارمولا کارگر ثابت ہو سکا اور نہ ہی کرفیو لوگوں کو باہر نکلنے سے روک سکا۔ ملازمتوں میں کوٹے پر طلباءکے احتجاج سے شروع والی تحریک نےآخر کار انقلاب بن کر حسینہ کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اگر دیکھا جائے تو ملازمتوں میں کوٹہ کوئی بہت بڑا ایشو نہیں تھا اسے ختم کر کے معاملات کو سنبھالا جا سکتا تھا لیکن اقتدار کاخمار بزور طاقت کچلنے کی خواہش رکھتا تھا۔ بنگلہ دیشی عوام کے احتجاج کے پس منظر میں وہ سارے عوامل شامل تھے جس کے لیے طلباءکے احتجاج نے چنگاری کا کام کیا۔ دراصل موجودہ انتخابات میں عوام حسینہ واجد کو مینڈیٹ نہیں دینا چاہتے تھے حسینہ نے عوامی خواہشات کے برعکس انتظامی طور پر الیکشن ہائی جیک کر کے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ اس نے ون پارٹی سسٹم کو مسلط کر دیا جس کابدلہ عوام نے لے لیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی مودی سرکار کو عوام اس بار اقتدار کا مینڈیٹ نہیں دینا چاہتے تھے لیکن مودی نے اپنی مینجمنٹ کے ذریعے زبردستی عوامی مینڈیٹ کو اپنے حق میں موڑ لیا۔ اس نے سارے میڈیا کو اپنے ہاتھ میں کر لیا، عوام کی آواز کو دبا دیا گیا، انتہا پسندی کے ذریعے عوام کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت کے عوام کے اندر بھی مودی حکومت کے خلاف لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ہمارے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔
ہم آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں پر موثر احتجاج بھگت چکے ہیں۔ ملک بھر میں بجلی کے بلوں نے کہر مچا رکھا ہے۔ علاقائی ایشو پر بھی احتجاج ہو رہا ہے اور لوگ انتخابی نتائج سے بھی مطمئن نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہیں اور کوئی درمیانی راستہ نکال کر لوگوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے چاہئیں۔ سری لنکا میں عوامی طاقت کے مظاہرے کے بعد بنگلہ دیش میں اچانک انقلابی تبدیلی نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سنا ہے کہ خلیج بنگال سے اٹھنے والی ہوائیں دور رس اثرات مرتب کرتی ہیں۔ دیکھنا ہے کہ بنگال سے اٹھنے والی مزاحمت کی لہر کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
تاریخ میں کچھ چیزیں سبق آموز ہوتی ہیں جن پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے ورنہ اگر اسے نظر انداز کر کے ایسی غلطی کو دہراتے رہیں تو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دو الفاظ ہیں نصیحت آموز اور سبق آموز۔ اگر آپ نصیحت آموز کو اپناتے ہیں تو آپ کو فائدہ ہوگا۔ اگر آپ اسے نظر انداز کرتے ہیں تو آپ صرف اس کے پھل سے محروم رہ جائیں گے۔ لیکن سبق آموز یہ ہے کہ اگر آپ نے اس عمل کو ترک کر دیا تو متوقع تباہی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اگر جاری رکھا تو آپ ان لوگوں کی طرح برباد ہو جاو¿ گے جنہوں نے خود کو تباہ کیا۔ حسینہ واجد کا معاملہ ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہے جواقتدار میں تشدد اور طاقت پر یقین رکھتے ہیں یا لاٹھی اور گولی پر انحصار کرتے ہیں۔
حسینہ بھاگ گئی
Aug 07, 2024