بنگلہ دیش میں طلباءکے احتجاج نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہو گئیں۔ مظاہرین نے فتح کے نعرے لگاتے ہوئے جشن منایا، وزیراعظم ہاوس میں داخل ہو گئے اور لوٹ مار شروع کر دی جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا کر لے گیا۔حسینہ واجد کو تقریر ریکارڈ کرانے کا موقع بھی نہ ملا۔ میڈیا کے مطابق 4 لاکھ افراد سڑکوں پر ہیں۔آرمی چیف وقارالزمان نے حسینہ واجد کو 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی مگر انہوں نے 45 منٹ پورے ہونے سے پہلے ہی راہ فرار اختیار کرلی۔ ادھر صدر محمد شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی ہے۔
حسینہ واجد مسلسل 16 سال کے اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین مدت تک وزیراعظم رہیں مگر ان کوبھیانک انجام سے دوچار ہو کر اقتدار سے نکلنا پڑا۔ ان کا دور آمریت سے عبارت تھا۔فسطائیت اسی کو کہتے ہیں۔آرمی چیف نے ڈھاکہ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ عبوری حکومت بنائی جائے گی۔ ہم بنگلہ دیش میں امن واپس لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ عوامی لیگ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہوئی ہے۔ عوام فوج پر اعتماد رکھیں۔آج معاملات فوج کے ہاتھوں میں ہیں۔آئندہ چند روز میں حکومت کا جو بھی ڈھانچہ سامنے آتا ہے وہ بہرحال حسینہ واجد کی فسطائیت سے بہتر ہوگا۔بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کو جن وجوہات اور مسائل کے باعث استعفیٰ دینا اور ملک سے فرار ہونا پڑا وہ لا ینحل نہیں تھے۔طلبہ کی طرف سے صرف ملازمتوں کے کوٹے کے قانون پر اعتراضات کیے گئے جن کو حکومت نے درخور اعتنا نہ سمجھا تو اس پر احتجاج ہوا اور یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے ایسے مظاہروں پر منتج ہوا کہ حسینہ واجد کے تخت کا ہی تختہ ہو گیا۔اس مسئلے کو بڑی آسانی کے ساتھ حل کیا جا سکتا تھا لیکن حسینہ واجد نے رعونت اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے مظاہروں کو پر کاہ کی اہمیت بھی نہ دی بلکہ وہ احتجاج کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آئیں۔ انہیں طنزاً رضاکار کہا گیا۔یہ اشارہ 1971ءمیں پاکستان کی بقا کے لیے مکتی باہنی اور اس کے گماشتوں کے خلاف لڑنے والے محب وطن پاکستانیوں کی طرف تھا جنہیں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کی جانب سے طنزاً رضاکار کہا جاتا تھا۔ مظاہرین کی طرف سے اسی نعرے کو اپنا لیا گیا اور انہوں نے”ہم ہیں رضاکار “کو ماٹو کے طور پر استعمال کرکے تحریک کو جاندار بنالیا۔جابر حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف تشدد کا ہر حربہ اختیار کیا گیا اور اس حکومت کے خاتمہ تک ہلاکتیں 300 کو کراس کر چکی تھیں۔
حسینہ واجد کے باپ کی طرف سے بنگلہ دیش کی بنیاد ہی نفرت پر رکھی گئی تھی۔ حسینہ واجد نے بھی اپنے باپ کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی سیاست میں بھی پاکستان سے نفرت اور بھارت سے محبت کا عنصر غالب رہا۔ڈھاکہ سے حسینہ واجد نے ہیلی کاپٹر سے پرواز لی تو اگرتلہ میں ان کا ہیلی کاپٹر لینڈ ہوا۔اگر تلہ وہی جگہ ہے جہاں شیخ مجیب الرحمن کی طرف سے پاکستان توڑنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ اگر تلہ لینڈ کرنے پر کہا جا سکتا ہے۔ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
پاکستان توڑنے میں بھارت پیش پیش تھا۔ اب حسینہ واجد کو استعفیٰ دینا اور ملک سے بھاگنا پڑا ہے تو انہوں نے اسی ملک میں جانے کا انتخاب کیا جو پاکستان توڑنے اور اس خاندان کو اقتدار میں لانے میں مددگار ثابت ہوا تھا۔
حسینہ واجد کی سیاست نفرتوں میں لتھڑی ہوئی تھی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی بات کرنے والوں سے نفرت تو ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔اپنے ملک میں بھی نفرتوں ہی کے بیج بوئے گئے۔جماعت اسلامی کے 90 سال تک کے بزرگوں کو پاکستانیت کے جرم میں بربریت اور سفاکیت کے ساتھ پھانسیوں پر لٹکایا گیا۔اپنے سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔بنگلہ دیش کی سب سے بڑی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سیاست کی راہیں مسدود کر دیں۔اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیاءکو ذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچر کیا گیا۔وہ کل تک قید تھی۔ آج ان کی رہائی عمل میں آئی ہے۔طلبہ تحریک حسینہ واجد کے جبر کا نشانہ بننے والی پارٹیوں کی معاونت ہی سے کامیاب ہوئی۔
مظاہروں کے دوران خصوصی طور پر آخری روز جب حسینہ واجد اپنے ملک سے فرار ہو رہی تھی تو اس موقع پر دنیا نے دیکھا کہ لوگ کس قدر انکی ذات، ان کے خاندان اور ان کی حکومت سے متنفر تھے۔دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کو پورے خاندان سمیت جہاں فوج نے ہلاک کیا تھا ،اسے میموریل میوزیم کا درجہ دیا گیا، مظاہرین نے سب سے پہلے اسے نذر آتش کیا۔عوامی لیگ کا گلستان میں دفتر جلایا گیا۔شیخ مجیب الرحمان کا دیو ہیکل مجسمہ توڑ کر زمین بوس کر دیا گیا۔ یہ تو حسینہ واجد کیلئے اچھا ہوا کہ ملک سے فرار ہو گئیں ورنہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنتیں اور ان کا انجام بھی لیبیا کے کرنل قذافی اور افغان صدر نجیب اللہ جیسا ہو سکتا تھا۔
حسینہ واجد ہمیشہ پاکستان مخالف رہیں‘ جب بھی بھارت اور پاکستان کا کوئی تناز عہ ہواتو انہوں نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا، انکے پورے عرصے کے دوران بھارت کی لابی کا بنگلہ دیش میں راج رہا، عوام کے ہاتھوں حسینہ واجد کا تختہ الٹایا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ جبر کے حالات چاہے نظریاتی ہوں یا عوامی مسائل پر مبنی‘ وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتے۔ عوام طاقت کا منبع ہوتے ہیں‘ انکے جائز مسائل حل کرکے ہی حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔حالات یہاں بھی قابل رشک نہیں ہیں۔حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی قوت خرید پست ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔مہنگائی سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ لاوا پک رہا ہے حکومت اس کے پھٹنے سے پہلے عوامی زندگیوں کو آسان بنانے کی کوئی تدبیر کرلے۔اشرافیہ کی مراعات پر قدغن لگا کے عام آدمی کو آسانی سے ریلیف دیا جا سکتا ہے۔