شیخ حسینہ واجد کا طویل دور اقتدار اختتام کو پہنچا ہے، حسینہ واجد کے دور اقتدار میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، نریندر مودی اور حسینہ واجد نے مل کر بنگلہ دیش میں لوگوں کے ذہنوں میں پاکستان بارے زہر بھرنے کی کوشش ہوتی رہی آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ آمریت پسند حسینہ واجد کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی، انگلینڈ سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے، میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ امریکہ نے حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کر دیا ہے، شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کو گرایا جا رہا ہے، نیو یارک میں بھی بنگلہ دیشی مظاہرین نے دھاوا بول کر شیخ مجیب الرحمٰن کا پورٹریٹ اتار دیا ہے، جماعت اسلامی کے سینکڑوں قیدیوں کو رہائی مل رہی ہے۔ فوج میں اعلی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں، پارلیمنٹ تحلیل ہو چکی ہے، شیخ حسینہ واجد بھارت نواز تھیں اور بھارت بھی انہیں خاندانی خدمات کے عوض اہمیت دیتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے لاکھوں مظاہرین کی یہ نفرت بنیادی طور پر بھارت سے بھی نفرت کا اظہار ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی فوج سے رابطہ کر کے مدد کی پیشکش کر دی ہے۔ حالانکہ شیخ حسینہ واجد کی مخالفت بھارت کی پالیسیوں سے نفرت کا اظہار ہے۔ یہ عوامی غصہ اور نفرت ان اقدامات کے نتیجے میں ہے جب حسینہ واجد نے طاقت اور اقتدار کے زعم میں مظاہرین کو رضا کار کہا، رضا کار انہیں کہا جاتا ہے جنہوں نے انیس سو اکہتر میں پاک فوج کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو رضا کار کہا جاتا ہے۔ پاکستان توڑنے کی سازش کا حصہ بننے والوں کے نام پر آج تک حسینہ واجد حکومت میں رہتے ہوئے سیاسی مقاصد کے تحت قانون سازی کرتی رہیں اور لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ عوامی مظاہروں نے حسینہ واجد کو گھٹنے ٹیکنے اور ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان دشمنی اور بھارت کے ساتھ دوستی میں اس خاندان نے تمام حدود کو عبور کیا ہے۔ لوگ ان مظاہروں اور شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار کے واقعے کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہوں گے میرے لیے اس کا پہلو ذرا مختلف ہے چونکہ اس خاندان نے پاکستان کو توڑنے اور متحدہ پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت نے شیخ مجیب الرحمٰن کا ساتھ دیا اور ہمارے بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہونے والا ملک توڑنے کے لیے کام کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا جو انجام ہوا تھا حسینہ واجد کی حکومت کا اختتام اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ جو شخص کسی مقصد سے ہٹتا ہے، شہیدوں کے خون کا سودا کرتا ہے، غیروں کا ساتھی بنتا ہے اپنے لوگوں سے دھوکہ کرتا ہے، اس کا انجام وہی ہے جو شیخ حسینہ واجد اور ان کے والد کا ہوا تھا۔ جس شخص نے اس ملک کی بنیادوں کے ساتھ ناانصافی اور بے وفائی کی ہے وہ سب کردار آپ کے سامنے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیں ملک کے ساتھ وفاداری نبھائیں، بزرگوں اور شہداء کی عظیم قربانیوں کو یاد رکھیں ان سے وفا نبھائیں۔ آپ نے مناظر دیکھے ہیں کیسے شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے کو توڑا گیا کیسے لوگوں نے اس خاندان سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی یہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ملک کے وسائل سے محروم افراد کے لیے زندگی آسان بنائیں، لوگوں کو سہولت دیں، لوگوں کو سڑکوں پر آنے کا موقع نہ دیں، لاکھوں لوگ شیخ حسینہ واجد اور ان کی حکومت کے ساتھ نفرت کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر تھے۔ ساری زندگی بھارت کے اشاروں پر چلنے والوں نے بھی انہیں پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔ انیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد کیا یہ سزا بہت بڑا سبق نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علیٰ امین گنڈاپور نے صوابی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اگست کے آخری ہفتے یا ستمبر کے پہلے ہفتے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ نے عوامی اجتماع میں جو زبان استعمال کی ہے وہ اس منصب کے شایان شان نہیں، پاکستان میں سیاسی قیادت آج بھی نجانے کس دور میں زندہ ہے جہاں لوگوں سے مناسب انداز میں گفتگو کا کوئی سلیقہ ہی نہیں ہے۔ آپ ملک کے ایک صوبے میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر ہیں۔ آپ دھمکی آمیز زبان میں کس سے مخاطب ہیں۔ آپ ایسی زبان سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں ہمیں اسلام آباد میں جلسے کے لیے کوئی بھی جگہ دے دو، اگر این او سی کی درخواست کے باوجود اجازت نہ دی گئی تو ڈی چوک پر جلسہ کریں گے۔
اگر آپ علی امین گنڈا پور کی تقریر سنیں تو اندازہ ہو گا کہ ان کا لب و لہجہ کیا ہے اور وہ دھمکی آمیز لہجے میں لوگوں پرتشدد احتجاج کے لیے اکسا رہے ہیں ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ ہم پرامن رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جو الفاظ ادا کر رہے ہیں اس کا مطلب پرامن رہنا ہرگز نہیں ہے۔ کیا احتجاج ہر مسئلے کا حل ہے۔ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، سیاسی قیادت لوگوں کو سڑکوں پر لا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ احتجاج کی سیاست نے پہلے ہی معیشت کو ڈبو دیا ہے۔ اب اگر ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ اس انداز میں احتجاج کی قیادت کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ پی ٹی آئی کے سنجیدہ لوگوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تصادم کی کیفیت سے نقصان ہونا ہے اور ماضی میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں۔
ایک اور پانچ اگست گذر گیا، ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پانچ اگست کو پاکستان میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، دو ہزار انیس میں نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے تین ٹکڑے کر دیے تھے نریندر مودی کی متعصب، مسلم دشمن اور ہندو توا کو فروغ دینے والی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے بھی اوچھے ہتھکنڈے اختیار کیے، پانچ اگست دو ہزار انیس کو آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کے گھروں کو جیل میں بدل دیا تھا، اس کے بعد کشمیریوں کو حریت جدوجہد کی اتنی بڑی قیمت چکانا پڑی کہ ان کے لیے زندگی مزید مشکل بنا دی گئی، بنیادی سہولتوں پر پابندیاں لگا دی گئیں، رابطے کے ذرائع بند کر دئیے، حتی کہ مذہبی آزادی بھی چھین لی گئی۔ مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہ ملی، محرم الحرام کی مجالس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، مطلب کون سا ظلم تھا جو نریندر مودی اور اس کے بیرحم و متعصب ساتھیوں نے کشمیریوں پر نہ کیا ہو۔ اس عرصے میں بین الاقوامی ماہرین کو بھی مقبوضہ کشمیر داخلے کی اجازت نہ ملی، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ تو شاید کانگریسی رہنما راہول گاندھی کو بھی مقبوضہ کشمیر کے دورے سے روک دیا گیا تھا۔ دو ہزار انیس سے چلتے چلتے ہم دو ہزار چوبیس میں آ چکے لیکن مقبوضہ کشمیر میں آج بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے اڑایا جاتا ہے، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے، جذبہ آزادی سے سرشار کشمیریوں کہ آنکھوں میں گولیاں اتاری جاتی ہیں۔ آزادی کے متوالوں پر ظالم بھارتی فوج ہر لمحہ ظلم کی نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔ ان تمام مظالم کے باوجود آج بھی دلیر، بہادر، جرات مند اور جذبہ ایمانی سے سرشار کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ یاسین ملک پر تہاڑ جیل میں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں تو آزادی کا خواب دیکھتے دیکھتے نجانے کتنے جوان اپنی قیمتی زندگیوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ بچوں کی معصومیت قربان ہو چکی ہے، بزرگوں نے کمزور بدن سے جدوجہد آزادی میں اپنا حصہ ڈالا ہے جب کہ آزادی کے لیے خواتین کی قربانیاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دنیا آج بھی بھارت کے اس ظلم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا خون مسلم اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ مسلسل بہنے پر بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی، اس سے بھی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ کو بھی اپنے بھائیوں کے خون بہنے کا کچھ دکھ نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کر دینے اور مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے واقعے کے خلاف پاکستان میں یوم استحصال کشمیر منانے کا بنیادی مقصد تو دنیا کو یہ احساس دلانا ہے کہ عالمی طاقتیں ہوش کے ناخن لیں اس یوم استحصال کشمیر پر ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے مقبوضہ وادی میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔ یوم استحصال کشمیر کے موقع پر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت مظلوم کشمیریوں کی آزادی کے لیے کوششوں کو دنیا کے سامنے رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں اس ذمہ داری کا احساس مزید مضبوط ہونا چاہیے مسئلہ کشمیر کو مسلسل عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کس سوچ اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، کیسے بھارتی مظالم کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کرنے کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے سامنے مظلوم کشمیریوں کے مقدمے کو پیش کرتے رہنا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیریوں سے ان کے رہے سہے حقوق بھی چھین لیے تھے۔ آرٹیکل 370 سمیت دیگر معاملات میں بھارت مسلسل عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عالمی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ ایک طرف مقبوضہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ کیا اقوام متحدہ دنیا میں کسی جگہ مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی پر بھی حرکت میں آئے گی یا نہیں؟؟؟
گذشتہ روز افواج پاکستان نے مختلف اندرونی و بیرونی معاملات پر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ نو مئی جس روز دفاعی اداروں پر چڑھائی ہوئی، مظاہرین نے قانون توڑا، حدود سے تجاوز کیا، شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا، بے حرمتی کی، قومی املاک کو نقصان پہنچایا، ملک میں انتشار پھیلایا، معصوم، سادہ لوح نوجوانوں کو بغاوت پر اکسایا۔ چونکہ ملک میں ہر روز سیاسی صورت حال بدلتی رہتی ہے اس لیے سیاسی معاملات میں بعض اوقات یہ گفتگو رہتی ہے کہ شاید نو مئی کے معاملے میں بھی افواج پاکستان کا موقف تبدیل ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کہتے ہیں کہ نو مئی سے متعلق فوج کا بڑا واضح مؤقف ہے، اس مؤقف میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی۔ قانون ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف مؤثرکام نہیں کر رہا، جو ڈیجیٹل دہشتگرد باہر بیٹھ کر بات کر رہے ہیں وہ بے ضمیر لوگ ہیں، جو پیسوں کے لیے ملک عوام اور اداروں کے خلاف بات کرتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد قیادت دہشت گرد تنظیموں کی پراکسی ہے، یہ بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھے کو جمع کر کے انتشار پھیلاتے ہیں، ان کے بیرونی سرپرست انسانی حقوق کے نام پر ان کی مدد کرتے ہیں، بلوچ راجی مچی کی یہ پراکسی بے نقاب ہوچکی۔ ایک مافیا نہیں چاہتا ملک اور عوام ترقی کریں، اس مافیا کی کوشش ہے کہ عوام ترقی نہ کرسکیں اور وہ عوام کا استحصال کرے، بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا انحصار ایران سے تجارت پر ہے، اگر ایرانی سرحد بالکل بند کردیں گے تو مافیا کو فوج کیخلاف بات کرنیکا موقع ملے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے مختلف معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں۔ نو مئی کے معاملے میں جو بھی لوگ ملوث ہیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے جس نے قانون توڑا ہے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے لیکن کسی بے گناہ کو سزا بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہیے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر قانون و انصاف کی عمارت کو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ لہذا ہمیں ہر حال میں کسی بھی مقدمے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ جن لوگوں نے سازش کی ان کے ساتھ کسی بھی سطح پر وہ کوئی بھی ہوں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان میں ہونے والے احتجاج اور سمگلنگ پر بھی گفتگو کی اس حوالے سے آئندہ لکھوں گا لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ چند روز قبل چین کے قونصل جنرل یانگ یو ڈونگ نے کہا تھا کہ گوادر میں کچھ سیاسی پارٹیاں احتجاج کر رہی ہیں، ان لوگوں کو وہاں چلنے والے پروجیکٹس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ اس معاملے آئندہ ضرور لکھوں گا کہ کون ہے جو ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا دشمن بنا ہوا ہے۔
آخر میں صوفی غلام تبسم کا کلام
سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی
یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی
پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی
اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
ہر دردِ محبّت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
چرکے وہ دیے دل کو محرومی قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
جلوؤں کے تمنّائی جلوؤں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں گے جلوؤں کے تمنّائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
دنیا ہی فقط میری حالت پہ نہیں چونکی
کچھ تیری بھی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
افسونِ تمنّا سے بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے باکی کچھ عشق میں زیبائی
وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی
آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے
پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی
سمٹی ہوئی آہوں میں جو آگ سلگتی تھی
بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی
یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اْٹّھی آواز تری آئی
اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشہ خلوت میں یہ دشت کی پنہائی
ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسّم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی