نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ) خطے میں بھارتی وزیراعظم کی قریبی اتحادی حسینہ واجد کی برطرفی مودی کی ایک اور سفارتی ناکامی ہے۔ اپنی آمرانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کے نتیجے میں حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ برطرف حسینہ واجد ایک ایسے خطے میں نریندر مودی کی قریبی اتحادی تھیں کہ جہاں بھارت اکثر چین کے حوالے سے خدشات میں مبتلا رہتا ہے۔ 5 اگست کو بھارت میں اس حوالے سے یاد کیا جائے گا کہ جب حسینہ واجد کی برطرفی یا ٹی وی چینلز پر ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھنے کی تقریب نشر کی گئی تھی یا پھر 5 اگست کو کشمیریوں کے آئینی دن پر ڈاکہ زنی کو؟ اب چاہے تاریخ 5 اگست کو کسی بھی حوالے سے یاد رکھا جائے لیکن اہم یہ ہے کہ نریندر مودی ان تینوں مواقع پر ناکام رہے، انہیں یہ گمان تھا کہ ایودھیا مندر کی تقریب کے بل پر وہ انتخابات جیت سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ انہیں تو اپنی تیسری دورِ حکومت کے لیے دو اتحادیوں کی حمایت کی ضرورت پڑی۔ اپنے قریبی دوست کا تختہ الٹ جانا وہ بھی ایسی دوست کہ جنہوں نے مودی کی تینوں تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ مودی کی پہلے سے خراب قسمت پر ایک اور وار ثابت ہوا۔ جب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد شیخ حسینہ واجد نے نریندر مودی سے دو مرتبہ ملاقات کی تو مودی کو ڈھاکا میں بڑھتے اضطراب کو بھانپ لینا چاہیے تھا۔ اگر مودی کی انٹیلی جنس ٹیم دور دراز ممالک میں سکھ باغیوں کا پیچھا کرنے میں مصروف نہ ہوتی تو شاید وہ اپنی اتحادی حسینہ واجد کو ڈھاکا میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے حوالے سے متنبہ کر دیتے۔ حسینہ واجد کی حکومت سے برطرفی نے شاہ ایران کے زوال کی یاد تازہ کر دی اور ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ بی جے پی عالمی حالات میں بھانپنے میں کس طرح ناکام ہوئی۔ جس طرح جون میں حسینہ واجد نے دو بار بھارت کا دورہ کیا، اسی طرح شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا آخری بیرونی دورہ بھی بھارت ہی کا تھا۔ اس وقت بھی مخلوط حکومت کی صورت میں بی جے پی برسراقتدار تھی۔ شاہ ایران کا پْرتپاک استقبال کیا گیا جبکہ اٹل بہاری واجپائی وزیر خارجہ تھے۔ 1978ء میں پہلے امریکی ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر نے دہلی کا دورہ کیا۔ ان کے بعد شاہ ایران کی بھی بھارت آمد ہوئی۔ دونوں کی میزبانی بی جے پی حکومت نے ہی کی تھی اور وزارت خارجہ کی کرسی پر نامور اٹل بہاری واجپائی براجمان تھے۔ جمی کارٹر دوسری مدت کے لیے اقتدار میں نہیں آسکے جبکہ شاہ ایران پناہ تلاش کرتے رہے، مودی کی طرح اٹل بہاری واجپائی نے بھی نواز شریف پر سرمایہ کاری کی جو اس وقت بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ اٹل بہاری واجپائی کو اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر کچھ عرصے بعد ہی پرویز مشرف کی حکومت بھی سیاسی افراتفری کی نذر ہو گئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ سفارتی معاملات سے شیخ حسینہ زیادہ لاعلم تھیں یا نریندر مودی۔