پندرہ سالہ جابرانہ دور اقتدارکا خاتمہ،مظاہرین نے پاکستانی پرچم لہرا دیا

Aug 07, 2024

عیشہ پیرزادہ

عیشہ پیرزادہ 
Eishapirzada1@hotmail.com 

کسے معلوم تھا کہ 5 جولائی بروز پیر سابقہ پاکستان کے لیے ایک ایسی گھڑی لے کر آئے گا کہ جس سے 15 سالہ دور اقتدار شیخ مجیب کی بیٹی کے ہاتھ سے چھن جائے گا۔ کون جانتا تھا کہ تین ہفتوں سے جاری کوٹہ مخالف تحریک چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے والی حسینہ واجد سے نہ صرف ان کا اقتدار چھین لے گی بلکہ انھیں ایسا جھٹکا دے گی کہ وہ آئندہ سیاست سے توبہ بھی کر لیں گی۔ گزشتہ پیر سے ایک دن پہلے اتوار کو شیخ حسینہ تمام مظاہرین کو  جب دہشت گرد کے ٹائٹل سے نواز رہیں تھیں تب کسے معلوم تھا کہ اگلے دن طلوع ہونے والا سورج ان ہی کا اقتدار لے ڈبوئے گا۔ 
بنگلہ دیشی تاریخ میں ایسی احتجاجی تحریک اس سے پہلے سن 71 کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی۔ 
گزشتہ پیر کی دوپہر عوامی لیگ کے کچھ سینیئر رہنماؤں اور مشیروں نے شیخ حسینہ کو مطلع کیا کہ حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں لیکن وہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کو طاقت کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے لیکن پھر سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام نے انھیں بتا دیا کہ اب صورتحال کو سنبھالا نہیں جا سکتا۔ 
ایک اعلیٰ بنگلہ فوجی اہلکار نے  برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ صرف سپیشل سکیورٹی فورس، پریذیڈنٹ گارڈ رجمنٹ اور آرمی ہیڈکوارٹر میں کچھ سینیئر فوجی افسران ہی جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے استعفیٰ کے خط پر کب دستخط کیے اور وہ کب ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر بھارت چلی گئیں۔
ان کے مطابق یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے کیا گیا۔
حسینہ واجد کے استعفے اور ملک سے فرار ہوجانے کے بعد ڈھاکہ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں کئی تھانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
ان حملوں میں مظاہرین کی جانب سے پولیس اسٹیشنز کو نذر آتش کرنے سے لے کر توڑ پھوڑ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ان حملوں کے بعد بنگلہ دیش میں پولیس سروس ایسوسی ایشن نے پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنائے جانے تک ہڑتال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ 
اہم بات یہ ہے کہ 300 مظاہرین کو گولیوں سے چھلنی کرنے والی حسینہ واجد کو ان ہی کے رشتہ دار آرمی چیف نے استعفی دینے کے لیے 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا۔وہ ملک چھوڑنے سے قبل بنگلہ دیشی قوم  کو ویڈیو پیغام دینا چاہتی تھیں لیکن فوج نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے اپنا ایک پیغام خط کی صورت میں لکھا تھا، لیکن فوجی اہلکاروں نے انہیں خط پڑھنے اور ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دی۔ شیخ حسینہ واجد نے معزولی کے بعد بھارت کا راستہ کیوں اختیار کیا تو اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بھارت ہمیشہ سے ہی شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے بعد ان کی بیٹی پر خاص مہربان رہا ہے۔ آپ اگر بھارت کو شیخ خاندان کا دوسرا گھر کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔دوسرا 1975 میں ایسا ہی کچھ حسینہ واجد کی فیملی کے ساتھ ہوا تھا۔ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا تو اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔اس دوران انہوں نے بھارت میں جلا وطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں جہاں اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہوئیں۔یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ مشتعل ہجوم سے انہیں ماضی جیسی خطرے کی بو بھی آ رہی تھی۔ عوام ان کے پندرہ سالہ آمرانہ رویے سے اس قدر بد دل ہوچکے تھے کہ شیخ حسینہ واجد کے فرار کے بعد مظاہرین نے پی ایم ہائوس اور پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا۔ سامنے آنے والی تصاویر کو دیکھ کر لگا کہ ماضی نے ایک بار پھر خود کو دہرایا ہے جب طالبان نے افغانستان پر واپس قبضہ حاصل کیا تھا۔ اس مرتبہ بنگلہ دیشی عوام نے مودی نواز حکومت کو ملک بدر کر دیا۔ مظاہرین حسینہ واجد کی آرام گاہ میں گھس کر آرام کرنے لیٹ گئے اور سیلفیاں بناتے رہے۔ کسی نے تالاب کی مچھلی نکال لی تو کوئی حسینہ واجد کے زیر استعمال ملبوسات کو ہوا میں اچھالتا ملا۔ پارلیمنٹ ہائوس کی کرسیوں پر مظاہرین براجمان ہو گئے۔ البتہ تمام صورتحال کے باوجود بنگلہ دیش میں مارشل لاء￿  نہیں لگا بلکہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد وہاں کے آرمی چیف نے عبوری حکومت کے قیام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔شیخ حسینہ واجد کے جانے بعد صدر کی جانب سے ایک اور اہم کام یہ بھی ہوا کہ انہوں نے79 سالہ خالدہ ضیاء￿  جو 2 مرتبہ بنگلادیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں،اور 2020 میں17سال کی قید کی سزا سے رہائی کے بعد سے گھر میں نظر بندی کی زندگی گزار رہی تھیں کی رہائی کا حکم دے دیا۔
ہم نے دیکھا کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے ان پندرہ سالہ دور اقتدار کو بطور انتقام استعمال کیا۔ 2009 میں جب شیخ حسینہ واجد اقتدار میں آئیں تو سب سے پہلے ان کے انتقام کا نشانہ وہ لوگ بنے جنھوں نے 71 کی جنگ میں پاکستان کی حمایت کی تھی۔گو کہ اس وقت کے لوگوں میں بیشتر وفات پا چکے تھے لیکن جو زندہ بچے وہ شیخ حسینہ کے غضب کا شکار ہوئے۔  جماعت اسلامی انتقام کی فہرست میں سر فہرست تھی۔جماعت اسلامی کے بیشتر سینئر اور بزرگ رہنماؤں کو سن 2013 میں عدالتوں کی جانب سے سنہ 1971 میں قتل، اغوا اور جنسی زیادتیوں سمیت انسانیت کے خلاف جھوٹے جرائم میں ملوث ہونے پر سزائیں سنائے جانے کے بعد پھانسیاں دی گئیں  تھیں یا انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن منسوخ کیے جانے پر سن 2013 سے قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی عائد ہے۔ جمہوری دور کی جابر و آمر حکمران کا لفظ اگر شیخ حسینہ واجد کے لیے استعمال کریں تو بے جاہ نہ ہوگا۔ بلا مبالغہ ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی پر بھی ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔بنگلہ دیش کے میڈیا کا موقف ہے کہ حسینہ واجد حد درجہ خوشامد پسند تھیں اور انہیں اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے سوا کسی شخص کا تذکرہ پسند نہیں تھا جس کے مجسمے بنوا کر پورے ملک میں اہم مقامات پر نصب کردیئے گئے تھے۔اب عوام شیخ حسینہ اور شیخ مجیب کی ہر علامت کو مسمار کررہے ہیں یا انہیں نذرا?تش کیا جارہاہے شیخ مجیب جسے بنگ بند ہو کہا جاتا تھا دھان منڈی ڈھاکا میں اس کے گھر کو مجیب میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا مشتعل نوجوانوں نے اسے بھی ا?گ لگادی ہے اسی مکان میں شیخ مجیب اور اس کے پورے خاندان کو بنگلہ دیش کے نوجوان فوجی افسروں نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔حسینہ واجد نے ان فوجی افسروں کو اپنی حکومت کے دور میں دور نزدیک سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انہیں تختہ دار پر لٹکادیا گیاتھا۔
پاکستان کے لیے ان کے دل میں بھری بغض اور عوام پر برستا قہر عوام کے دل سے پاکستان سے محبت کا جذبہ نکال نہیں سکا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شیخ حسینہ واجد نے کوٹہ مخالف تحریک کے مظاہرین کو رضاکار کا نام دیا تو سبھی مظاہرین نے ایک نعرہ فخر سے لگایا کہ" ہم بھی رضاکار تم بھی رضاکار"۔رضاکار انہیں کہا جاتا ہے جنہوں نے سنہ 71 کی جنگ میں پاکستانی افواج کا رضاکارانہ ساتھ دیا تھا۔ یہ بڑی بات ہے کہ ملک گیر احتجاج میں71 کے رضاکاروں کے لیے نعرہ لگایا گیا۔ جبکہ کہیں کہیں مظاہرین نے بنگلہ دیش کے پرچم کے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لہرا دیا۔
ہم نے دیکھا کہ مظاہرین کی ایک تعداد  شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے پر بھی چڑھ کر اسے توڑنے لگی۔ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان سے بغاوت کرنے والا،بھارت کا ایجنڈ اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے والا یعنی بنگلہ دیش کا بانی ہے۔ اگر بانی کے لیے عوام کے یہ جذبات ہیں تو یقینا بنگالی عوام آج بھی اپنے دل پاکستان سے جڑے ہوئے پاتے ہیں۔ یہاں مجھے اپنے نانامرحوم پروفیسر فروغ احمد جنھوں نے سنہ 71ء￿  کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے کا  ایک شعر یاد آگیا ہے۔
لڑی یہ ڈھیلی تو پڑتی ہے،کٹ نہیں سکتی
وطن بٹے تو بٹے،قوم بٹ نہیں سکتی

مزیدخبریں