عزیز علوی' محمد ریاض اختر
وطن عزیز میں ینگ گورنرز کا جب بھی تذکرہ کیا جائیگا' فیصل کریم کنڈی کا نام سرِ فہرست ہوگا، ڈی آئی خان سے متعلق 49 سالہ سیاست دان نے جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں وہ مثالیں خال خال دیکھی جاتی ہیں۔ فیصل کریم کنڈی 2008سے 2013 ء تک ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے منصب پر فائز رہے پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے وہ پالیسی بیانات بھی جاری کرتے رہے، 8 فروری 2024 ء کے عام انتخابات کے تین ماہ بعد چار مئی کو وہ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ کے لیے نامزد ہوئے۔ اگست کے ابتدائی ہفتے میں انہوں نے نوائے وقت ہاؤس اسلام آباد کا وزٹ کیا ایوان وقت میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے اپنے صوبے کی گورننس ،تعلیمی صورتحال، امن وامان اور سیلاب سے متعلق ایشوز پر گفتگو کی ان کی بات چیت کے منتخب حصے پیش کئے جارہے ہیں!!
نوائے وقت: یوم استحصال کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب کے سامنے ہیں آپ کی کیا رائے ہے ؟
فیصل کریم کنڈی: پانچ اگست کو پوری قوم نے یک جان ہو کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا ، پاکستانی قوم کی بے مثال محبت وعقیدت گواہی دے رہی تھی کہ پاکستان اور کشمیر لازم وملزوم ہیں ہم کشمیریوں کی اخلاقی' سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے ذریعے ہی حل ہونا ہے۔
س: وفاق اور صوبے کے تعلقات مثالی ہوگئے؟
ج: جب میں گورنر تعینات ہوا تو ڈی آئی خان کے معزز جج اغواء ہوئے، محکمہ کسٹم اور صحت کے اہلکاروں کو شہید کیا گیا یہ اس وقت امن کی حالت تھی گورنر دراصل فیڈریشن کا نمائندہ ہوتا ہے جو صوبے اور وفاق کے تعلقات میں بہتری کے لیے پل کا کردار ادا کرتا ہے مگر ہمارے صوبے میں معاملہ عجیب ہے دوسرے صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں وہاں ایسا ایشو نہیں یہاں گڈ گورننس کا مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے 2013 ء میں پیپلز پارٹی نے پرامن اور خزانہ سے بھرا ہوا خیبرپختونخوا ان کے سپرد کیا آج حالت یہ ہے کہ گنڈا پور حکومت اخراجات پورے کرنے کے لیے یونیورسٹوں کی اراضی فروخت کرنے پر آگئی ہے ان کی'' علم دوستی'' کا اندازہ اعلیٰ تعلیم کیلئے بجٹ سے لگالیں اس بار تین ارب روپے مختص کئے جبکہ پنجاب میں اس مقصد کے لیے 7 ارب ،بلوچستان میں 5 ارب اور سندھ میں 26 ارب روپے رکھے گئے ہمارے صوبے میں 21 یونیورسٹیوں کا نظام بغیر وائس چانسلرز کے چلایا جارہا ہے ہم اس پارٹی کی بات کررہے ہیں جس کے قائد اپنی تقریروں میں ایجوکیشن کو فوکس کرتے رہے۔
س: اور ہیلتھ کا شعبہ؟
ج: شعبہ صحت کے لیے بھی تین ارب رکھے گئے، آپ کے پی کے کا سندھ سے کیسے موازانہ کرسکتے ہیں؟ سندھ میں پورے پاکستان سے لوگ علاج معالجے کے لیے آرہے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ایک بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ طبی مرکز نہیں!! پندرہ سال سے یہاں فرسٹ کلا س کرکٹ نہیں ہوئی، صوبے کا واحد ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم پشاور 2017 سے زیر مرمت ہے کب تک یہ مکمل ہوگا اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ کرکٹ اور فٹ بال اکیڈ یمیاں برائے نام ہیں کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے۔
س: صوبے میںامن وامان کی صورت تسلی بخش کیوں نہیں؟
ج: بات اہمیت اور سنیجدگی کی ہوتی ہے، گنڈا پور حکومت کی شائد ترجیح یہ نہیں۔ ڈی آئی خان ٹانک' بنوں ' پارہ چنار، سوات اور لکی مروت سمیت کئی شہروں میں امن امان کا ایشو ہے۔ بنوں میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیا۔تجویز دی گئی کہ حکومت امن وامان کی صورت حال پر صوبائی اسمبلی کا ان کیمرہ سیشن بلائے ،افسوس سیشن طلب کیا گیا نہ کابینہ کا غیر معمولی اجلاس اور نہ ہی صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلانے میں سرگرمی دکھائی گئی گویاگنڈا پور حکومت پشاور تک محدود رہی !! پشتون روایت کے مطابق اگر دکھ ،غم اور رنج میں جب آپ کسی کے پاس جائیں تو متاثرہ شخص، خاندان یا قبیلے کی ڈھارس بند ھ جاتی ہے لیکن یہاں وزیراعلی اور وزراء کے پاس شہریوں کیلئے ٹائم ہی نہیں۔
س:مون سون کی بارشیں اور سیلابی خطرات
ج: چترال اور سوات میں گزشتہ برس بارشوں نے بڑی تباہی مچائی۔ اس بار حکومت نے کیا پیش بندی تھی ؟کسی کو کچھ پتہ نہیں، مون سون کی غیر معمولی بارشیں شروع ہیں حکومت کو فلڈسیزن سے قبل این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کو انگیج کرنا چاہیے تھا۔ مشترکہ لائحہ عمل سے مسائل کم کرنے میں مدد ملتی ہے، آج بھی کئی شہروں کو بارشوں اور سیلابی خطرے کا سامنا ہے شدید بارشوں کا موسم ہے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے فوری اقدامات کرے تاکہ گزشتہ سیلاب جیسی تباہ کاریوں کے نقصانات سے صوبے کو محفوظ بنایا جاسکے لاء اینڈ آرڈر کا بریک ڈاؤن ہے صوبائی حکومت دہشتگردی کنٹرول نہیں کرپارہی جس سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے، کسٹمز ،صحت ، پولیس کے شعبوں پر حملے ہوئے ہیں لکی سیمنٹ کے عملے کے ساتھ جو سلوک ہؤا اس پر صوبائی حکومت نے مجرمانہ خاموشی اِختیار کی ہوئی ہے امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر کے پی کے اسمبلی کا بند کمرے کا اجلاس بلا کر ارکان کو اعتماد میں لیا جائے صوبائی کابینہ کا بھی اس پر اجلاس ہونا چاہئے پارہ چنار کی خراب صورتحال میں بھی صوبائی حکومت کہیں دلچسپی سے کام کرتے نطر نہیں آئی صدرآصف علی زرداری کے پی کے کی عوام کے ساتھ خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔ آج بھی کئی شہروں کو بارشوں اور سیلابی خطرے کا سامنا ہے جب کہ حکمرانوں کو صوابی اور پشاور میں پی ٹی آئی کے جلسوں کی فکر ہے فاٹا کی سات قبائلی ایجنسیوں کا کے پی کے میں انضمام ہوگیا سابقہ فاٹا میں قبائلی عمائدین اور پولیٹیکل ایجنٹس سے صوبائی گورنر کا جو تعلق تھا افسوسناک بات ہے کی موجودہ صوبائی حکومت نے اس پر کوئی کام نہیں کیا قبائلی اضلاع کے عوام کو 100 ارب روپے کا بجٹ دینے کا وعدہ ہوا جو پورا نہیں ہؤا آج وہ رقم 200/250ارب روپے تک پہنچ گئی ہے اور قبائلی عوام سے ترقی کے جو وعدے کئے گئے وہ پورے نہیں ہوئے ایسی صورت میں تو قبائلی عوام یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں پرانا فاٹا میں ہی رکھا جائے۔
س: آپ وفاق نے نمائندے ہیں صدر مملکت کی کیا توقعات ہیں
ج: صدر آصف علی زرداری پورے پاکستان کا درد رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عوام کی خدمت ان کی توقعات سے بڑھ کر کی جاتی رہے۔ 18 ویں ترمیم صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کا تحفہ ہے اسی ترمیم کے ذریعے این ڈبلیو ایف پی میں رہنے والوں کو خیبرپختونخوا کا نام اور پہچان ملی صوبے کے لوگ پیپلز پارٹی ،آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو بہت عزیز سمجھتے ہیں ،بلاول بھٹو قوم کا مستقبل اورامیدکا محور ہیں۔ صدر مملکت نے انہیں عوامی خدمت کی نصیحت کی تھی اسی وژن کے تحت وفاق اور صوبے کے تعلقات میں بہتری کی کوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں میری قیادت میں منتخب پارلیمنٹیرین کی وزیراعظم میاں شہبازشریف سے ملاقات کرائی گئی جس میں وزیراعظم نے کئی احکامات بھی جاری کئے ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اس طرح کی تعمیری سرگرمیاں جاری رہیں گی۔
س: قومی سیاست میں تلخی کیوں بڑھ رہی ہے؟
ج: سیاست جب ضد اور اپنی بات تسلیم کرانے سے لبریز ہو جائے تو پھر مثالی حالات نمودار نہیں ہوتے۔ بانی پی ٹی آئی مذاکرات کی آڑ میں این آر او کے خواہشمند ہیں وہ چاہتے ہیں ماضی کی طرح ''فوجی دوست'' ان کی مدد کو آجائیں اور پھر ان کی مرضی کا ''سیاسی کھیل'' شروع ہو۔ گویا وہ در پردہ خود اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت دے رہے ہیں۔
س: مولانا فضل الرحمان نئے الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں
ج: دوبارہ نئے انتخابات کرانا اتنا آسان نہیں یہ مطالبہ آخری آپشن ہوتا ہے مولانا صاحب جب پی ڈی ایم اے کا حصہ تھے تب بھی ایسے مطالبے میں پیش پیش تھے۔
س: پولیٹیکل ایجنٹ کی جگہ نیا نظام
ج: نئے نظام کو جڑیں پکڑنے میں وقت درکار ہے فاٹا انضمام کے بعد وہاں ڈی سی اور ڈی پی او تعینات ہو چکے ہیں صوبائی حکومت سنجیدگی سے عوامی مسائل کو ایڈریس کرے تو مسائل میں بڑی حد تک کمی ہوسکتی ہے ''مگر اس میں کرنی پڑتی ہے محنت زیادہ ''