ریبیز (بائولہ پن)

نوشاد حمید ....
’’ریبیز‘‘ بیماری کا نیا شکار پھر ایک بچہ ہی تھا۔ اویس جس کی عمر محض ساڑھے 6 سال تھی اسی جان لیوا بیماری کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گیا۔
’’ریبیز‘‘ کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ 4 سے 5 ہزار اموت واقع ہو جاتی ہیں۔ اویس نامی یہ بچہ سیالکوٹ کے علاقے کینٹ کے ایک غریب گھرانے کا رہائشی تھا جسے رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں ایک پاگل کتے نے کاٹ لیا۔ جب والدین اسے سول ہسپتال سیالکوٹ لے گئے تو ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہمارے پاس ویکسین نہیں ہے۔ اس نے نہ تو بچے کا مکمل معائنہ کیا اور نہ ہی کوئی طبی امداد فراہم کی۔ کتے کے کاٹنے کے ٹھیک 90 دنوں کے بعد بچے کو پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ وہ پانی اور کالے رنگ سے خوفزدہ رہنے لگا۔ والدین اسے ایک فلاحی ہسپتال میں لے کر گئے تو وہاں پر بھی ڈاکٹر مرض کی تشخیص نہ کر سکا اور اسے چلڈرن ہسپتال لاہور لے جانے کا مشورہ دیا لیکن اس کی نوبت نہ آسکی اور وہ معصوم راستے میں ہی ایڑیاں رگڑتے رگڑتے دم توڑ گیا۔
ریبیز بیماری کیلئے موجود طبی سہولیات تسلی بخش نہیں اور نہ ہی غریب آدمی اس بیماری کا مہنگا علاج برداشت کر سکتا ہے۔ معاشرے سے اس جان لیوا بیماری کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم کا آغاز کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے کہ عام لوگ ریبیز بیماری کی وجوہات اور بچائو کے طریقہ کار سے روشناس ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن