حافظ محمد ادریس.....
مجھے کئی دوستوں کے ایس ایم ایس موصول ہو رہے ہیں کہ ہم آپ کو سالِ نو کی مبارک باد دے رہے ہیں، میری توجہ فوراً یکم محرم کی طرف چلی گئی اور خیال گزرا کہ ہمارا سال تو عظیم شہادت سے شروع ہوتا ہے اور یکم سے لے کر دس تک شہادتوں کے چراغاں میںقدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 9، 10 محرم ہی کو نواسۂ رسول حسینؓ ابن علیؓ نے کربلا کے میدان میں اپنے پورے خاندان اور جاں نثار ساتھیوں سمیت جامِ شہادت نوش کر کے اسلام کے ابدی پیغام کو زندہ کر دیا تھا۔
یکم محرم 24 ہجری کو مرادِ رسولؐ خلیفۂ راشد، فاروقِ اعظمؓ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ حضرت عمرؓ کے تمام سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ وہ زندگی کے آخری سالوں میں ایک دعا اکثر مانگا کرتے تھے ، وہ یہ تھی اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد حبیبک، اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور میری موت آئے تو تیرے حبیبؐ کے شہر میں آئے۔ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ تعجب سے عرض کیا کرتے کہ ابا جان! آپ کی دعا ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک جانب آپ شہادت کی تمنا رکھتے ہیں، دوسری جانب آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ موت آئے تو مدینہ میں آئے۔ شہادت کی موت تو اب قادسیہ اور یرموک سے بھی آگے کے مقامات پر خیمہ زن ہے، تو یہاں کیسے شہادت ملے گی؟ اس کے جواب میں مسکرا کر فرماتے وما ذلک علی اللہ بعزیز، اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ آنحضورؐ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھانے کے لیے محراب میں کھڑے تھے اور نماز ہی کی حالت میں آپ پر فیروز لولو نامی ایک مجوسی نے حملہ کیا، جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا غلام تھا۔ آپؓ یوں خلعتِ شہادت سے بھی سرفراز ہوئے اور موت بھی مدینۂ رسول میں بلکہ مسجد نبوی کے اندر مصلی رسول پر ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ ان رائے کے مطابق وحی ربانی نازل ہوتی تھی۔ ان کا یہ قول اور تمنا بھی الہامی درجہ اختیار کر گئی۔
یکم محرم کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری تاریخ عظمتوں کی تاریخ ہے۔ ہم اپنے سالِ نو کا آغاز اس عظیم شخصیت کی یاد سے کرتے ہیں جس کے بارے میںاسلام دشمن بھی یہ کہتے سنے گئے کہ اگر تاریخ اسلام میں ایک عمرؓ اور ہوتا تو پورے کرۂ ارض پر اسلام کا پھریرا لہرا رہا ہوتا۔ تاریخ درس و عبرت کا مضمون ہے، محض واقعات و قصص کا مجموعہ نہیں۔ اگر ہم چشم بصیرت وا کریں تو یہ دن ہمارے لیے تجدید عہد کا دن بن جائے۔ ہم دنیا میں جن رسوائیوں اور ذلتوں کا شکار ہیں، ان سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ ہم پلٹ کر اپنی تاریخ سے اپنا رشتہ استوار کریں اور اس مردہ امت کو زندہ کریں۔ ظلم کا خاتمہ ا ور لوٹ کھسوٹ سے نجات کی تمنا تو ہر دل میں ہے مگر یہ محض تمنائوں سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اداروں کو اپنی حدود میں پابند کر کے ہی ہم مہذب اور ناقابل شکست قوم بن سکتے ہیں۔ آج آمریت کے اندھیروں اور کرپشن کی وبا نے پوری امت کو خزاں کے پتوں کی طرح بے وزن کر دیا ہے۔بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر ہو تو مرض لا علاج نہیں۔
وہی نامحکمی دل کی وہی دیرینہ بیماری....... علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!
مجھے کئی دوستوں کے ایس ایم ایس موصول ہو رہے ہیں کہ ہم آپ کو سالِ نو کی مبارک باد دے رہے ہیں، میری توجہ فوراً یکم محرم کی طرف چلی گئی اور خیال گزرا کہ ہمارا سال تو عظیم شہادت سے شروع ہوتا ہے اور یکم سے لے کر دس تک شہادتوں کے چراغاں میںقدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 9، 10 محرم ہی کو نواسۂ رسول حسینؓ ابن علیؓ نے کربلا کے میدان میں اپنے پورے خاندان اور جاں نثار ساتھیوں سمیت جامِ شہادت نوش کر کے اسلام کے ابدی پیغام کو زندہ کر دیا تھا۔
یکم محرم 24 ہجری کو مرادِ رسولؐ خلیفۂ راشد، فاروقِ اعظمؓ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ حضرت عمرؓ کے تمام سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ وہ زندگی کے آخری سالوں میں ایک دعا اکثر مانگا کرتے تھے ، وہ یہ تھی اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد حبیبک، اے اللہ مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور میری موت آئے تو تیرے حبیبؐ کے شہر میں آئے۔ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ تعجب سے عرض کیا کرتے کہ ابا جان! آپ کی دعا ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک جانب آپ شہادت کی تمنا رکھتے ہیں، دوسری جانب آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ موت آئے تو مدینہ میں آئے۔ شہادت کی موت تو اب قادسیہ اور یرموک سے بھی آگے کے مقامات پر خیمہ زن ہے، تو یہاں کیسے شہادت ملے گی؟ اس کے جواب میں مسکرا کر فرماتے وما ذلک علی اللہ بعزیز، اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ آنحضورؐ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھانے کے لیے محراب میں کھڑے تھے اور نماز ہی کی حالت میں آپ پر فیروز لولو نامی ایک مجوسی نے حملہ کیا، جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا غلام تھا۔ آپؓ یوں خلعتِ شہادت سے بھی سرفراز ہوئے اور موت بھی مدینۂ رسول میں بلکہ مسجد نبوی کے اندر مصلی رسول پر ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ ان رائے کے مطابق وحی ربانی نازل ہوتی تھی۔ ان کا یہ قول اور تمنا بھی الہامی درجہ اختیار کر گئی۔
یکم محرم کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری تاریخ عظمتوں کی تاریخ ہے۔ ہم اپنے سالِ نو کا آغاز اس عظیم شخصیت کی یاد سے کرتے ہیں جس کے بارے میںاسلام دشمن بھی یہ کہتے سنے گئے کہ اگر تاریخ اسلام میں ایک عمرؓ اور ہوتا تو پورے کرۂ ارض پر اسلام کا پھریرا لہرا رہا ہوتا۔ تاریخ درس و عبرت کا مضمون ہے، محض واقعات و قصص کا مجموعہ نہیں۔ اگر ہم چشم بصیرت وا کریں تو یہ دن ہمارے لیے تجدید عہد کا دن بن جائے۔ ہم دنیا میں جن رسوائیوں اور ذلتوں کا شکار ہیں، ان سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ ہم پلٹ کر اپنی تاریخ سے اپنا رشتہ استوار کریں اور اس مردہ امت کو زندہ کریں۔ ظلم کا خاتمہ ا ور لوٹ کھسوٹ سے نجات کی تمنا تو ہر دل میں ہے مگر یہ محض تمنائوں سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اداروں کو اپنی حدود میں پابند کر کے ہی ہم مہذب اور ناقابل شکست قوم بن سکتے ہیں۔ آج آمریت کے اندھیروں اور کرپشن کی وبا نے پوری امت کو خزاں کے پتوں کی طرح بے وزن کر دیا ہے۔بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر ہو تو مرض لا علاج نہیں۔
وہی نامحکمی دل کی وہی دیرینہ بیماری....... علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!