بھارت کی سوچ اس کے قدیم دانشور چانکیہ کے اس قول پر قائم ہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ جب دشمن کو مارنا ہو تو اس سے دوستی کر لو اور جب اس کو مار چکو تو اس کی لاش پر آنسو بہاﺅ۔ تحریک پاکستان کے دوران اور آج 65سال گزرنے کے باوجود بھارت میں جو بھی حکومت آئی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ پاکستان بناتے وقت ہندوستانی رہنما یہ اعلان کرتے رہے کہ پاکستان اگر بن بھی گیا تو زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ بلاآخر وہ بھارت کا حصہ بن کر ہی رہے گا اور دل سے پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کیا اور اس کو کمزور کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہونا تھے لیکن ہندوستان نے جونا گڑھ، حیدر آباد، گرداس پور اورریاست جموں و کشمیر پر انگریز سے ساز باز کرتے ہوئے زبردستی قبضہ کر لیا۔ پاکستان کے حصے کے واجبات بھی ادا نہ کئے اور روز اول سے یہ کوشش کی ہر فورم پر پاکستان کو بین الاقوامی طور پر بھی تنہا کر دیا جائے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی بھی کبھی پاسداری نہ کی۔ صدر ضیاالحق کے دور حکومت میں بھی بین الاقوامی سرحد پر اپنی فوج جمع کر دی تھی اور ضیاالحق پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کو دیکھنے کے لئے انڈیا چلے گئے تو میچ کے دوران بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے کان میں غالباً یہ کہا کہ پاکستان بھی ایٹمی قوت ہے اس کے فوراً بعد ہی بھارت نے پاکستانی سرحدوں سے اپنی فوج کو واپس بلوا لیا اور اس کو کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا گیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ وہ اکھنڈ بھارت کے لئے اور اپنے آپ کو بڑی طاقت منوانے کے لئے اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور اپنے ہم مذہب نیپال، سری لنکا وغیرہ میں ہمیشہ سے تحریب کاری کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر آزاد کشمیر کے جلسہ عام میں پہلی مرتبہ اس بات کا انکشاف کیا اور اعلان کیا کہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ کیونکہ پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم موجود ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ دو تہائی اکثریت لے کر جب میاں محمد نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنے تو اسی دوران بھارت نے چھ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کی تو اس کے جواب میں وزیراعظم پاکستان نے یہ اعلان کر دیا کہ بھارت کسی غلط فہمی نہ رہے۔ ہم بھی ایٹمی دھماکے کریں گے۔ ان کے اس اعلان کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن نے ان کو پانچ مرتبہ فوج کر کے دھمکیاں بھی دیں اور اربوں ڈالر امداد کی لالچ بھی دی۔ اور ان سے یہ بھی کہا کہ پاکستان اس حرکت سے باز نہ آیا تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کے استحکام، 18کروڑ عوام اور ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ رکھنے کے لئے امریکی صدر اور دیگر ممالک کے سربراہان، اقوام متحدہ اور دیگر قوتوں کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر بھارت کے چھ دھماکوں کے مقابلے میں سات دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر جو اعلان کیا اسے وزیراعظم بننے کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کے بعد بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا اور مینار پاکتان پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دوست تو بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ یہ اعلان بھارت کے کسی لیڈر کا پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا پہلا اعلان تھا۔ ہمارے خیال میں یہ میاں نواز شریف کی کامیاب خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اعلان لاہور میں تنازع کشمیر، تجارت، ثقافت، سیاحت، ویزا پالیسی اور دیگر امور پر مذاکرات ہوئے اور یہ طے ہوا کہ مرحلہ وار پاکتان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کو کم کیا جائےغ گا۔ دوستی اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے گی تاکہ دونوں ممالک کے عوام کی غربت، جہالت اور ان کے بے پناہ مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے اور جنوبی ایشیا کو امن کا خطہ بنایا جائے لیکن جنرل پرویز مشرف نے کارگل کو جنگ چھیڑ کر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرتے ہوئے پاکستان کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کر دیے۔ (جاری)