اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں سی این جی کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے اوگرا کو ہدایت کی ہے کہ جو سی این جی سٹیشنز ریکارڈ کی فراہمی میں تعاون نہیں کر رہے ہیں اور وہ اپنی آڈٹ نہیں کراتے ان کے لائسنس منسوخ کئے جائیں۔ سی این جی کی قیمتیں 17 دسمبر تک برقرار رکھی جائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سی این جی کی قیمتوں کے بارے میں کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جو سی ا ین جی سٹیشنز حسابات نہیں رکھتے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا اوگرا کی ذمہ داری ہے، عدالت ایسے کسی عمل کی اجازت نہیں دے گی جس سے عوام کا استحصال ہو۔ اس سے پہلے ایف بی آر نے سی این جی سٹیشنز کی طرف سے تین سال میں جمع کرائے گئے ٹیکس کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کیں جس کے مطابق 2009ءسے 2011ءکے درمیان 4 ارب 9 کروڑ روپے کا ٹیکس جمع کرایا گیا۔ سی این جی سٹیشنز نے 2009ءمیں ایک ارب 80 لاکھ، 2010ءمیں ایک ارب 42 کروڑ 70 لاکھ روپے، 2011ءمیں ایک ارب 65 کروڑ 50 لاکھ روپے کا ٹیکس دیا۔ اوگرا حکام کی طرف سے بھی عدالت میں جواب جمع کرایا گیا جس کے مطابق 2002ءسے 2011ءتک سی این جی لائسنس کے حصول کے لئے 6 ہزار 471 درخواستیں آئیں، 6 ہزار 154 عارضی لائسنس دئیے گئے، تین ہزار 395 مارکیٹنگ لائسنس جاری کرنے کی اجازت دی گئی۔ سی این جی سٹیشنز کو تین سال کے دوران ایک کروڑ 7 لاکھ روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ 380 شوکاز نوٹسز اور 131 وارننگ بھی جاری کی گئیں۔ سی این جی سٹیشنز پر 1273 معائنے کئے گئے۔ اوگرا کے مطابق سی این جی رولز 1992ءکے تحت آڈٹ اکاﺅنٹس اور انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرنا ضروری نہیں، لائسنس جاری کرنے کے لئے یہ شرائط نہیں رکھیں تاہم اب تک 5 سی این جی سٹیشنز نے اپنے آڈٹ کردہ اکاﺅنٹس جعمع کرائے ہیں۔ سیکرٹری پٹرولیم نے عدالت کو بتایا کہ سی این جی قیمتوں سے متعلق کابینہ کی میٹنگ نہیں ہو سکی اور یہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران ہو گی۔ اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پٹرولیم اور سی این جی سٹیشن کا مارجن برابر ہے۔ سٹیشنز والے عدم تعاون کرتے ہوئے آڈٹ نہیں کرا رہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ریگولیٹر کے پاس تو ایک ہی ڈیوٹی ہوتی ہے وہی صارفین کے مفادات کا خیال رکھتا ہے، 34 ہزار سی این جی سٹیشنز قائم ہیں یہ تعداد بہت زیادہ ہے، یہ کیس ٹیکس ریٹرن کے لئے زیر سماعت نہیں، فریقین سامنے ہیں اوگرا بتائے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ اوگرا کے دو کام ہیں قیمتوں کا تعین اور پراسیس اگر پراسیس درست ہے تو قیمتیں درست ہوں گی اگر پراسیس میں کوئی جھول ہو گا تو قیمتیں غلط ہوں گی۔ اوگرا نے حکومت کو بھی گائیڈ لائن دینی ہے جو کام 3 نومبر سے شروع کیا اسے مکمل کیا جائے۔ سلمان راجا نے کہا کہ سٹیشنز والے تعاون نہیں کرتے۔ اس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ آپ ان کا لائسنس منسوخ کر دیں۔ درخواست گذار ایڈووکیٹ اکرام چودھری نے کہا کہ 460 کے قریب غیر قانونی سٹیشنز ہیں جن کا ریکارڈ اوگرا عدالت میں پیش نہیں کر رہا۔ ایک اور درخواست گذار ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ سی این جی زائد قیمت اور بندش نیب آرڈیننس اور اے ٹی اے میں آتی ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ ایک اور درخواست گذار نے عدالت سے بھگوان داس کی طرز پر جوڈیشل کمشن تشکیل دینے کی سفارش کی۔ عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے جذباتی انداز میں کہا کہ وہ کلمہ پڑھ کر اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں انہیں نقصان ہو رہا ہے۔ عدالت ہمارا مﺅقف بھی سنے، اوگرا غلط بیانی سے کام لے کر رہا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر آپ نے ایسی جذباتی باتیں کرنی ہیں تو عدالت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ غیاث پراچہ نے کہا کہ سی این جی والوں اور عوام کو لڑایا جا رہا ہے، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے کسی سے نہیں لڑانا صرف قانون کو دیکھنا ہے، ہم اوگرا کے حکام سے مطمئن نہیں وہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، نئے چیئرمین کے آتے یہ قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں، معاملے میں بہت سی خرابیاں ہیں اگر سی این جی والے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کھاتے تو یہ غلط ہو گا۔ ایک سٹیشن مالک ذوالفقار نے کہا کہ میرے 10 سٹیشن ہیں، میرا آڈٹ کر لیں کوئی منافع کمایا نہیں جا رہا، 71 روپے میں ملنے والی گیس 61 روپے میں کس طرح فروخت کر دیں۔ اس پر جسٹس جواد احمد خواجہ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل تسلیم نہیں کی جائے گی کہ آپ سیدھی بات کر رہے ہیں آڈٹ اوگرا سے کرائیں کاسٹ پرائس پر کیا منافع مل رہا ہے یہ طے کرنا اوگرا کا کام ہے۔ سی این جی سٹیشنز والے 4 سال آپریٹنگ کاسٹ اڑاتے رہے ہیں اس کو بھی دیکھنا ہے، تمام ریکارڈ اوگرا کو دیا جائے ضروری نہیں اوگرا ہر بات مانے مگر اسے ماننے اور نہ ماننے کی وجوہات بتانا پڑیں گی، یہ عدالت پوچھے گی۔ عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کر دی۔