بلوچستان کی الف لیلی، اصل کہانی

بلوچستان کی الف لیلی، اصل کہانی

بلوچستان میں اساتذہ نے تنخواہیں نہ ملنے پر بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، یہ خبر پڑھ کر مجھے اچنبھا ہوا، اس لئے کہ صوبے میںتین برس تک کام کرنے والے آئی جی پولیس چودھری محمد یعقوب نے مجھے بتایا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کواس قدر وافر پیسہ مل گیا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا۔اس وقت ملک کے ہر صوبے کا بجٹ خسارے میں ہے مگر بلوچستان کا بجٹ سرپلس ہے اور اس کی وجہ وہ فالتو وسائل ہیں جو آئینی ترمیم کے بعد ہر صوبے کی طرح بلوچستان کو بھی ملے۔گیس رائلٹی کی مد میںماضی کے واجبات کی ادائیگی بھی کر دی گئی۔اس کے ساتھ ایک مگر بھی ہے۔
چودھری یعقوب کہتے ہیں کہ پچھلی پارلیمنٹ اور حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اٹھارویں ترمیم منظور کی اور صوبوں کو اختیارات اور وسائل سے مالا مال کر دیا۔اس کا سب سے بڑا فائدہ بلوچستان کو پہنچا۔۔۔ مگر وفاق نے اس صوبے کو اتنے بھاری وسائل کے استعمال کے لئے نہ ذہنی طور پر تیار کیا ، نہ صوبائی انتظامیہ کی عملی تربیت کا کوئی بندو بست کیا۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب وفاق صوبے پر اتنی بڑی عنائت کر رہا تھا تو وہ اس لین دین کی شرائط طے کرتا اور سب سے بڑی شرط یہی ہوتی کہ اب صوبہ امن کی بحالی کی ذمے داری بھی قبول کرے اور جو عناصر ریاست سے جنگ کر رہے ہیں یا فتنہ و فساد میں ملوث ہیں ، وہ روزمرہ کے کام کاج میںمصروف ہوں،تعلیمی میدان میں نئے منصوبے بنائے جائیں، مواصلات کی بہتری کے لئے ماضی کی اسکیموں کو مکمل کیا جائے ، صحت کی سہولتوں کو بہتر کیا جائے، نئی ٹیکنالوجی ا ور ہنر مندی سے نوجوانوں کو مستفیض کیا جائے۔چودھری یعقوب کا کہنا ہے کہ وفاق نے بس آئین سازی کی اورصوبے پر دولت نچھاور کر دی، یہ تو سوتے بچے کا منہ چومنے والی بات ہوئی۔ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک بہت بڑا جرگہ بلایا جاتا اورقبائلی، سیاسی، مذہبی اور صوبائی قیادت سے کہا جاتا کہ آپ کو جن محرومیوںکا شکوہ تھا وہ آج سے دور کر دی گئی ہیں ، اب آپ بھی اپنی ذمے داری نبھائیں اور صوبے کے حالات کو معمول کے مطابق چلانا شروع کریں ، نوجوانوں کے ذہنوں سے یہ زہر نکالیں کہ وفاق ان کے حقوق پر ڈاکہ مار رہا ہے۔اب آپ کے لئے آغاز حقوق بلوچستان کا عظیم منصوبہ بھی الگ سے شروع کر دیاگیا ہے، صدر زرداری نے ماضی کی کوتاہیوں پر معافی بھی مانگی ہے ، آﺅ اب قومی دھارے کا حصہ بنیں اور کسی پراپیگنڈے میںنہ آئیں، کسی اندرونی اور بیرونی سازشی قوت کے آلہ کار نہ بنیں۔
میںنے چودھری یعقوب سے پوچھا کہ بلوچستان کی محرومیوں کا آغاز کیسے ہوا۔جواب ملا ، صوبے کاوسیع رقبہ اور قلیل آبادی مسائل کی جڑ ہیں۔لوگ دور دور بکھرے ہوئے ہیں، زیادہ تر پہاڑ اور بے آب و گیا ہ علاقے ہیں اور گنی چنی انسانی آبادیوں تک جدید دور کی سہولتوں کی فراہمی دقت طلب بھی ہے اور کثیر سرمایہ بھی درکار ہے۔لیکن کسی کو پس ماندہ رکھنے کی یہ وجہ معقول قرار نہیں دی جا سکتی، آج دنیا کی مہذب اقوام اپنے ایک ایک فرد کی ضروریات زندگی کا خیال رکھتی ہیں،کوئی شخص کہیں گھر بنانا چاہے تو اس کے گھر تک سڑک کی تعمیر، پانی، بجلی، گیس،فون اور ہر سہولت بہم پہنچانے کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔میرے ذہن میں خیال آیا کہ جب خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا پیاسا مر جائے تواس کی پرسش ان سے ہوگی۔یہ تھا اصول ایک مہذب، متمدن، جدید ریاست کا جسے ہم نے تو پس پشت ڈال دیا لیکن اغیار نے اس پر عمل کر کے اپنے شہریوں کے سر پر سائبان کھڑا کردیا۔آج امریکہ میں حکومت کو کیوں مالی اور سیاسی بحران درپیش ہے ، اس کی ایک وجہ اوبامہ کا ہیلتھ کئیر پروگرام ہے، صدر کچھ چاہتے ہیں اور عوام کچھ چاہتے ہیں ، گویا عوامی حاجات کی تکمیل ایک سپر پاور کے لئے بھی چیلنج بن گئی ہے مگر ہم نے ایک صوبے سے عشروں تک صرف نظر کئے رکھا۔اس دوران صوبے کو جو کچھ ملا ، وہ سرداروں اور وڈیروںکی جیب میں چلا گیا،اور جب ان کو اگلی قسط نہیںملتی تو وہ شورش کھڑی کر دیتے ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے کو اپنے مسائل کے حل کے لئے کچھ اور نہیں چاہئے ، صرف ایک عزم نو درکار ہے۔
ہمیں ادارک کرنا چاہئے کہ ہم وہ غلطیاںنہیں دہرا سکتے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنیں، وہاںبھی احساس محرومی کا رونا رویا گیا، ہمیں تمام طبقات، اور تمام صوبوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنا ہوگا تاکہ سازشی عناصر، نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر نہ بھر سکیں اور انکے ہاتھ میں بندوق نہ تھما دیں۔غنیمت یہ ہے کہ بلوچستان کی سرحد پر کوئی بھارت جیسی شیطانی طاقت نہیں ۔ ہمیں بلوچستان کی جیو اسٹریٹجک صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچی بھائیوںکے زخموں پہ مرہم رکھنا چاہئے۔یہ درست ہے کہ افغانستان میںبھارت کی عملی مداخلت موجود ہے اور وہ اپنے قونصل خانوں سے بلوچستان میں اسلحہ اور ڈالر تقسیم کر رہا ہے لیکن اگر ہم صوبے کے وسائل کو اس کے عوام کے لئے وقف کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کی سازشیں دم نہ توڑ جائیں۔
چودھری یعقوب نے بتایا کہ فوج نے بلوچستان سے بھرتی کا عمل شروع کیا ہے، پنجاب یونیورسٹی نے بلوچ طالب علموں کو داخلہ دیا ہے اور ان کے اخراجات کا ذمہ بھی اٹھایا ہے، وزیر اعلی پنجاب نے آواران کے زلزلہ میں اپنی بیماری کے باوجود امدادی سرگرمیوں کی خود نگرانی کی ہے، اس سے ایک اچھا تاثر جانا چاہئے۔ن لیگ نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبے میں قوم پرستوں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا ہے، اس سے صوبائی قیادت کا وفاق پر اعتماد بڑھے گا اوردلوںمیںحائل فاصلے کم ہوں گے۔
چودھری یعقوب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام کے بعد کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہی ملک کے دونوںحصوں میں بے حد تفاوت تھا، کمیونزم کے زیر سایہ مشرقی جرمنی کنگال ہو چکا تھا لیکن مغربی جرمنی نے طویل عرصے تک ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا ، آج دونوں حصوں میں وہ تفاوت نہیں ہے جو نوے کے عشرے کے اوائل میں دیکھنے میں آتا تھا۔
قائد اعظم کے حوالے سے چودھری یعقوب جذباتی ہو گئے،ا نہوںنے کہا کہ ہمیں اس خطے کا تو خاص طور پر خیال کرنا چاہئے جہاں ہمارے عظیم قائد نے زندگی کے آخری ایام بسر کئے۔انہیں زیارت ریذیڈنسی بے حد محبوب تھی اور محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے جذبات کی ترجمانی اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔شر پسندوںنے زیارت کو چن کر نشانہ بنایا، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اس نشانی کو ملیا میٹ کرنا چاہتے تھے جسے بانی پاکستان کی یادگار ہونے کا فخر حاصل ہے۔
کیا صوبے کا مسئلہ طاقت سے حل ہو سکتا ہے، چودھری یعقوب کا جواب تھا ، ہمیں طاقت کے استعمال کا خیال بھی ذہن سے نکال دینا چاہئے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کوشش تو کیجئے، کہیں زمین پر ایڑیاں تو رگڑیئے، محبت کے زمزمے خود بخود بہنے لگیں گے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...