لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری لاہور میں ایک ہفتہ قیام کے بعد کراچی واپس چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں متحرک اور فعال کرنے کی خواہش دھری رہ گئی۔ پارٹی کے اعلیٰ اور صوبائی سطح پر اختلافات سامنے آئے۔ قیادت میں موجود چپقلش اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوششیں چھپی نہ رہ سکیں۔ پارٹی کے سینئر ترین رہنما مخدوم امین فہیم کو بھی پارٹی قیادت سے گلہ پیدا ہوگیا کہ شیری رحمٰن کو پارٹی کا نائب صدر بنانے کے فیصلے سے پارٹی انتشار کا شکار ہوگئی۔ انکا یہ کہنا ہے کہ ان سے اس حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جبکہ یہ فیصلہ انکے ’’نام‘‘ سے جاری کیا گیا تھا۔ دورہ لاہور سے پہلے ہی بلاول اور زرداری میں جھگڑے کی خبر عام ہوچکی تھی اور پارٹی قیادت کے انکار کے باوجود بالآخر یہ خبر درست ثابت ہوگئی۔ زرداری پنجاب پیپلز پارٹی ایگزیکٹو کے اعزاز میں عشائیے کے بعد اجلاس کے دوران سابق صوبائی وزیر اشرف سوہنا کی طرف سے بلاول بھٹو کو جیالوں سے دور رکھنے کے سوال پر اسقدر جذباتی ہوئے کہ تسلیم کرلیا کہ انہوں نے قصداً بلاول کو پارٹی سیاست سے دور کیا ہے۔ آصف زرداری جو بیحد ’’ٹھنڈے مزاج‘‘ کے سیاستدان ہیں نجانے اپنی فطرت کے خلاف کیوں اتنے جذباتی ہوئے کہ یہ بھی کہہ گزرے کہ بینظیر بھٹو نے بلاول کو نہیں انہیں اپنا سیاسی وارث قرار دیا تھا اور بلاول کو انہوں نے اپنا سیاسی وارث بنایا ہے۔ آصف زرداری کے ان الفاظ پر غور کیا جائے تو پارٹی کی قیادت اب آصف زرداری خود کریں گے اور وہ اس میں بیٹے کو بھی شامل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آصف زرداری نے اپنے آپ کو بے نظیر بھٹو کا وارث قرار دیا ہے۔ بلاول کو باپ کی ’’وارثت ملنے تک‘‘ انتظار کرنا ہوگا۔ زرداری نے بلاول کے حوالے سے واضح کردیا کہ بلاول کو عملی سیاست سے فی الحال دور رکھا جائیگا۔ موجودہ سیاسی ماحول جارحانہ سیاست کیلئے موزوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول نے ابھی صرف ایک بڑے جلسے (کراچی) سے خطاب کیا ہے اور 50 ’’پنگے‘‘ لے لئے ہیں اور 100 لوگوں کو ناراض کر لیا۔ اسے ابھی مزید سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ بلاول کا اپنے والد کے ’’اقوام زریں‘‘ پر ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے لیکن وہ بہرحال بینظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں جواب جلد متوقع ہے۔ آصف زرداری کی آمد سے پہلے منظور احمد وٹو اور جہانگیر بدر کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آگئی تھیں۔ زرداری کی موجودگی میں یہ خبریں حقیقت بن گئیں اور ان کی موجودگی میں ’’گو وٹو گو‘‘ اور ’’گو بدر گو‘‘ کے نعرے لگ گئے جس پر زرداری کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی میں گروہ بندی ہے مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان ’’گروہ بند لیڈروں‘‘ کو ان کی اوقات یاد دلا دی اور کہا کہ ورکرز ان لیڈروں کے نہیں ان کے ساتھ ہیں۔ زرداری کو اپنی مفاہمانہ پالیسی پر پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پی کے، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، فاٹا سمیت ملک بھر سے آنیوالے جیالوں کی ناراضگی کا سامنے کرنا پڑا کہ ورکرز نے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانے اور پیغام دے دیا انہیں مسلم لیگ (ن) کیلئے آصف زرداری کا ’’نرم گوشہ‘‘ قبول نہیں۔ دریں اثناء کراچی کے سٹاف رپورٹر کے مطابق آصف زرداری پنجاب کا دورہ مکمل کرنے کے بعد گذشتہ روز کراچی پہنچ گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری جلد سندھ میں پارٹی امور کے حوالے سے اہم اجلاس کی صدارت کریں گے۔