اظہر الدین نے بے حرمتی کی وارداتیں گنگوتری سوسائٹی کے ایک ٹیریس میں چھپ کر دیکھیں۔ اس نے کہا ”میں نے دیکھا کہ گڈو چارا (ہندو بلوائی) کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ فرزانہ کی عمر صرف 13 سال تھی۔ وہ حسین نگر کی رہنے والی تھی۔ انہوں نے لوہے کا سریہ فرزانہ کے پیٹ میں گھونپ دیا، بعد ازاں اسے زندہ جلا دیا۔ بارہ سالہ نور جہاںکی بھی بے حرمتی کی گئی۔ اس واردات کے ملزم گڈو، سریش، نریش چارا اور ہریا تھے۔ میں نے بھوانی سنگھ کو بھی دیکھا مواصلات میں کام کرتا تھا اس نے پانچ آدمیوں اور ایک لڑکے کو قتل کیا“۔
عثمان نے بتایا کہ ”ہجوم نے جو چارا نگر اور کبرنگر سے آیا تھا شام کے قریباً چھ بجے لوگوں کو زندہ جلانا شروع کر دیا۔ ہجوم نے میری 22 سالہ بیٹی سمیت آبادی کی تمام لڑکیوں کو جمع کیا اور ان کی بے حرمتی کی۔“ (نوٹ: سٹیزن انسٹیٹیوٹ نے اس واردات کی تصدیق کی)۔
جب گجرات کا قتل عام منظم منصوبے کے تحت جاری تھا تو مہامنتری اٹل بہاری واجپائی دہلی میں سکون سے بیٹھے ہوئے تماشا دیکھتے رہے حالانکہ وہاں سینکڑوں مسلمان خاندانوں کو تہس نہس کر دیا گیا، ان کی املاک کو تاخت و تاراج کر دیا اور کم از کم دو ہزار مسلمانوں کو نیست ونابود کر دیا۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو ہندو دھرم کے اصولوں اور اپنے باپو مہاتما گاندھی کی روایات کے مطابق واجپائی جی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے گجرات پہنچ گئے۔ 3 اپریل کی شام کو جبکہ واجپائی صاحب وہاں موجود تھے پولیس انسپکٹر ایس ڈی شرما نے سلیمان روضہ ریلیف کیمپ (سارسپور) کے ساڑھے سات سو مسلمان مہاجرین پر دھاوا بول دیا اور پیرو بھائی محمد شیخ اور خاتون بی شرف الدین سید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسی دن ایڈووکیٹ نظام کو اس گھر میں جا کر گولی مار دی اور الامین غریب نواز ہسپتال کے نائب صدر کو شدید زد و کوب کیا۔ اکثر نعشیں مظلوم و معصوم عورتوں اور بچوں کی تھیں۔ یہ نعشیں ضلع پنچ محل کے پنڈ واڈا گاﺅں کے ان بے ضرر نہتے مسلمانوں کی تھیں جنہیں 2002ءمیں ظالم ہندو ”سورماﺅں“ نے پوری طرح مسلح ہو کر حکومت کی نگرانی میں قتل کیا تھا۔ یہ اجتماعی قبر پانی کی پائپ لائن بچھانے کے لئے کھدائی کرتے ہوئے اتفاقیہ دریافت ہوئی ہے۔ لیکن بھارت کی ہندو نواز سرکاری کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ اپنے گھناﺅنے جرم کو چھپانے کے لئے انہوں نے ان دو بے گناہ مسلمان مزدوروں کو گرفتار کر لیا جو کھدائی کر رہے تھے۔ (نوائے وقت، لاہور، 29 دسمبر 2005ئ)
احسن جعفری کا قتل:
گجرات کی مسلم قتل گاہ میں ہندوﺅں نے نہ صرف عام مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا بلکہ ان خواص کو بھی نہیں چھوڑا جو کانگریس کے نظریات کے مطابق اپنی ساری عمر ”ہندوستانی قومیت“ کا نہ صرف دم بھرتے بلکہ دل و جان سے اس کا پرچار بھی کرتے رہے۔ احسن جعفری کانگریس کے سرکردہ افراد میں شامل تھے اور انڈین پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نصف صدی سے زیادہ گزرنے کے بعد اب ہندو روشن خیال ہو چکا ہے اور بھارتی مسلمان بھی ”قومیت وطن سے ہے“ کے نظریے کے مطابق ہندوستانی قوم بن چکے ہیں تو پھر ناجد حسین کے مضمون ”ہمیں ضرورت ہے کہ اس پاگل پن کو روکا جائے“ We need to stop this madness کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ ناجد حسین کے سسر احسن جعفری، ہندوستان کی مشہور اور سرکردہ شخصیت تھے اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ بھارتی گجرات کے حالیہ فسادات میں انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ مضمون نگار اپنے سسر کے بارے میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: میرے سسر نے نسل، مذہب اور ملت کا لحاظ کئے بغیر اپنے ملک (ہندوستان) اور اس کے شہریوں کی نہایت فخر و امتیاز کے ساتھ پچاس برس خدمت کی۔ ان کی قومیت کے جذبے سے معمور نظمیں اور ان کے انسانی اقدار، وقار اور فرقہ وارانہ رواداری کے حامل مستقل ارشادات، اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستانی تہذیب میں ان کی گہری جڑیں تھیں اور وہ تمام مذہبی عقائد کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہیں انتہا پسندوں نے، گجرات گورنمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ، جان بوجھ کر نشانہ بنایا، صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔“
احسن جعفری کانگرس کے سرگرم رکن تھے اور تحریک آزادی میں عملاً حصہ لیا تھا مگر انکے بہیمانہ قتل پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اظہار افسوس کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ بھارت میں حکومت کی اشیر باد اور پولیس اور فوج کی ملی بھگت کے ساتھ 15 اگست 1947ءسے لے کر آج تک مسلمانوں کا قتل عام کیوں جاری ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز، چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی اور متعدد خداﺅں کے ماننے والوں نے کبھی بھی خدائے وحدہ لاشریک کے ماننے والوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت کے بل پر قائم بھارتی ہندو حکومت اپنے نام نہاد سیکولر دعوے کے باوجود مسلمانوں کے وجود کو نابود کر دینا چاہتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی اوقات کیا ہے، ان کو کیا سمجھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کتنے محفوظ ہیں، اس کا اندازہ جسٹس دیش پانڈے کی رائے سے کیجئے۔ اس رائے کی اہمیت کو سمجھنے اور پرکھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جسٹس دیش پانڈے کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ وہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور انڈیا لاءانسٹیٹیوٹ (India Law Institute) کے ایگزیکٹو چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اب ذرا سوچئیے کہ اکثریت (ہندو) کے ایک سرکردہ فرد کی رائے کا سرکاری اداروں، پولیس، عدالتوں، ارباب اختیار اورعوام پر کیا اثر ہو گا۔ جسٹس پانڈے نے جنوری 1990ءمیں دہلی میں Insitute of Objective Studies کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کو مشورہ دیا کہ ”وہ اکثریت (یعنی ہندو) کے ساتھ رشتہ اخوت پیدا کریں۔ مذہب اور زبان کو ذاتی معاملے تک محدود رکھیں اور مخلوط مذہب و ثقافت کو تقویت دینے کی کوشش کریں“۔ پچھلے اڑسٹھ سالوں سے بھارت میں ہندوﺅں کے ہاتھوں ہونے، عزت و عصمت لٹوانے اور معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد اب بھی ان مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں جو ہندو مسلم اتحاد کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان اظہر من الشمس حقائق کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ بھولے بھالے بے خبر پاکستانی، کچھ بھٹکے ہوئے نام نہاد دانشور، بھارت و پاکستان کے چند علمائے دین اور متعدد مخمور و مسحور سیاستدان بھی ابھی تک ہندو سے دوستی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ ہندو لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں پر اعتبار کئے جا رہے ہیں۔
ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
........(ختم شد)....