نیویارک سے ساڑھے نو گھنٹے کی پرواز کے بعد استنبول پہنچے‘ اتاترک ایئر پورٹ سے سیدھا حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دی۔ ہفتہ کے روز چھٹی کا دن ہونے کے سبب استنبول میں ٹریفک جام تھی۔ مزار شریف پر بھی بہت رونق تھی۔ نماز عصر مزار کی احاطے میں ادا کی۔ انتہائی دلفریب نظارہ تھا۔ ماحول وجد میں ڈوبا ہوا تھا۔ اذان اور تلاوت کلام پاک کانوں سے ٹکرائی تو سرور روح تک اتر گیا۔ گزشتہ برس صحابی رسول اللہ ﷺ کے مزار مبارک پر حاضری نصیب ہوئی تو اس وقت مزار پر تعمیراتی کام چل رہا تھا۔ آج دیکھا تو قبر مبارک حسین سنہری جالیوں میں جلوہ افروز تھی۔ قطار میں لگے زائرین عقیدت سے سر جھکائے سلام پیش کرتے چلے جا رہے تھے۔ کیا مقام ہے‘ کیا ہستی ہیں۔ روضہ صحابی رسول ؐکے سامنے کھڑے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ میرے پاس کوئی دولت نہیں جو اس ہستی کے قدموں میں نچھاور کر سکتی بجز ندامت کے آنسوئوں کے۔ عشق کی عملی مثال تو ہمارے سامنے تھی‘ ہم محض کھوکھلے وعظ و تبلیغ والے خالی لوگ ہیں۔ عمل اور عشق کی بھٹی تو یہ لوگ ہیں۔ آقاؐ کے ان محبوب صحابی‘ میزبان رسول اللہ ﷺ کو بھی جنت میں جانے کا شبہ ہو سکتا تھا؟ جنت کا مالک خود ان کے گھر میں سات ماہ مہمان رہا‘ دونوں جہاں کا سردار ابو ایوب انصاریؓ کو میزبانی کی سعادت عطا فرما رہا تھا‘ جنت جس کے گھر خود چل کر آئے انہیں نبیؐ کا شہر چھوڑ کر بڑھاپے میں چھ ماہ کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے کون سی طاقت تھی جو قسطنطنیہ لے آئی؟ وہ طاقت نبی کریمؐ کایہ فرمان مبارک تھا ’’کیا کمال ہو گا مسلمانوں کا وہ لشکر جو قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرے گا۔ اوراس فتح میں شامل لشکر کو جنت کی بشارت دی۔ حضورؐ کا یہ فرمان مسلمانوں کے لئے خوش نصیبی کی علامت بن گیا‘ یہاں تک کہ ایک ناکام لشکر میں شامل بزرگ صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل ہو گئے‘ قسطنطنیہ دوران جنگ جب زخموں سے چوُر ہو گئے تو فرمائش کی کہ انہیں اس شہر کی پناہ گاہ کے قریب ترین جا کر دفن کیا جائے۔ اس وقت یہ مقام دیوار قسطنطنیہ کے نام سے مشہور تھا۔ نبی کریمؐ کی مدینہ منورہ میں میزبانی کے شرف سے نوازے جانے والے عاشق رسولؐ کا مزار آج بھی برکات کا مظہر ہے۔ مزار ابو ایوب انصاریؓ پر ہماری زندگی کی دوسری حسین حاضری ہے۔ لوگ مدینہ میں موت مانگتے ہیں اور ابو ایوب انصاریؒ نے موت کے لیئے مدینہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اگر مدینہ میں موت نجات کی ضمانت ہوتی تو ضعیف صحابی رسولؐ مدینہ چھوڑ کر استنبول میں دفن ہونے کو فضیلت کیوں دیتے؟ نجات اور مقام مدینہ میں موت سے نہیں بلکہ نبی پاکؐ کی اطاعت میں موت سے ہے۔ جب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو مقام منکشف ہوا تو وہ مدینہ میں موت مانگنے کی بجائے مدینہ والے کی رضا میں موت کی دعا کرتے ہیں۔ استنبول میں چالیس صحابہ کرامؓ کی قبور موجود ہیں‘ تمام شہدا لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کرنے کی غرض سے تشریف لائے اور یہاں شہید ہو گئے۔ حاضری سے فارغ ہوتے ہی قونیہ کے لئے رخت سفر باندھا۔ اتاترک ایئر پورٹ استنبول کے یورپین حصے میں ہے جبکہ صبیحہ ایئر پورٹ شہر کے دوسرے کونے یعنی ایشین حصے میں ہے۔ قونیہ فلایئٹ کے لئے شہر کے دوسرے حصے تک پہنچنے میں قریباً ڈھائی گھنٹے لگے۔ حضرت جلال الدین رومیؓ کا مزار شہر قونیہ میں ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز ہمیں قونیہ لے آئی۔ ہمارے پروگرام کے بارے میں لاہور میںرومی فورم کے چیئرمین برادر محمود کو علم تھا۔ انہوں نے قونیہ ایئر پورٹ پہنچ کر ہمیں حیران کر دیا۔ دو روز کے لیئے صرف ہم سے ملاقات کے لئے قونیہ آئے ہیں جبکہ ان کا تعلق بھی قونیہ کے نواحی علاقے سے ہے۔ برادر محمود کے ترک سٹوڈنٹس برادر یونس اور برادر عصمت بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ قونیہ کے بہترین ریستوران میں ضیافت کا اہتمام تھا۔ ایسا لاجواب ترک کھانا ہم نے اس سے پہلے کسی ملک میں نہیں کھایا۔ انتہائی سادہ اور لذیذ۔ہم مولانا رومی کے مہمان ہیں۔ اتنی دور سے خاص طور پر شب عروس کے موسم میں آئے ہیں‘ مہمان نوازی خود بول رہی تھی۔ مزار مبارک پرصبح حاضری نصیب ہو گی۔ شہر رومیؒ میں بیٹھے مرید ہندی اور پیر رومیؒ کا تعلق یاد آرہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا رومیؒ کے تین اشعار کتاب ’’اسرار خودی‘‘ کے آغاز میں درج کئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے ’’کل شیخ چراغ لئے شہر میں گھوم رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں جانوروں‘ حیوانوں اور درندوں سے تنگ ہو گیا ہوں، مجھے کسی انسان کی تلاش ہے۔ ان سست الوجود نکمے ساتھیوں سے میرا دل بیزار ہو گیا ہے‘ مجھے شیر خدا اور رستم دستاں جیسے شجاع اور بہادر انسان کی تلاش ہے میں نے کہا وہ تو مل نہیں رہا جس کی آپ کو تلاش ہے تو جواب میں شیخ نے کہا جو مل نہیں رہا اسی کی تو مجھے تلاش و آرزو ہے‘‘۔ ڈاکٹر اقبالؒ مولانا جلال الدین رومیؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اور فیض پیر رومی کا تذکرہ اپنے کلام میں بار بار کرتے ہیں۔ کتاب جاوید نامہ میں ’’خطاب بہ جاوید‘‘ میں فرماتے ہیں ’’تو کسی مرد حق کو تلاش کر اور اس کی صحبت اختیار کر‘ چاہے تیری راہ میں سینکڑوں الجھنیں اور مشکلیں کیوں نہ آئیں مگر تو اس کی طلب کا ذوق ہاتھ سے جانے نہ دے لیکن اگر تجھے ایسے با خبر مرد حق کی صحبت میسر نہ آئے تو پھر جو کچھ میں نے اپنے آبائو اجداد سے حاصل کیا ہے تو وہ لے لے۔ تو پیر رومی کو اپنے راستے کا ساتھی بنا لے تا کہ خدا تجھے سوز و گداز عطا فرمائے، اس لئے کہ رومیؒ مغز کو چھلکے سے پہچانتے ہیں۔ ان کا پائوں محبوب حقیقی کے کوچے پہ مضبوطی سے پڑتا ہے۔ لوگوں نے ان کی مثنوی معنوی کی شرح تو کی ہے لیکن انہیں پہچانا نہیں۔ اس کے معنی ہرن کی طرح ہم سے بھاگتے ہیں، ان کے اسرار رموز کو کوئی نہیں پا سکا۔ لوگوں نے رومیؒ سے صرف رقص بدن سیکھا اور رقص جاں سے آنکھیں بند کر لیں۔ جسم کا رقص مٹی کو اڑاتا ہے جبکہ جاں کا رقص افلاک کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ رقص جاں سے فرد موسیٰ کلیم اللہؑ سے جذبے کا مالک بن جاتا ہے۔ باطل قوتوں کو جلانا آسان کام نہیں۔ جب تک انسان کا جگر حرص اور غم کی آگ میں جلتا رہے گا‘ اے بیٹے اس وقت تک جاں رقص نہیں کرے گی۔ غم ایمان کی کمزوری ہے۔ اے نوجوان (حدیث ہے) غم آدھا بڑھاپا ہے۔ اگر تو رقص جاں حاصل کر لے تو میں تجھے دین مصطفیٰؐ کا راز بتائوں گا اور میں تیرے لئے قبر کے اندر بھی دعا کرتا رہوں گا‘‘۔ (جاری ہے)