لندن (بی بی سی) پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو روکنے کے لیے قانون کا مسودہ تقریباً تین برس التوا میں رہنے کے بعد حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر سکا ہے۔ اس دوران 2000 سے زائد خواتین اس جرم کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے دو قانونی مسودے جنوری 2014 سے قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ان قوانین کو منظور کروانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس دوران انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2300 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔ اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانونی سازی کا مسودہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، اس جرم میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق 2015 میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ ملک میں ایک سال میں اس طرح سے قتل کی جانے والی خواتین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔ رواں برس مئی تک 212 خواتین کو قتل کیا گیا۔ اس طرح 2014‘ 2015ء اور 2016ء کے مئی تک 2300 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔ غیرت کے نام پر خواتین کن شہروں میں زیادہ قتل ہوئیں ان میں فیصل آباد سب سے آگے ہے۔ یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان 200 ایسے واقعات پیش آئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں فیصل آباد میں نام نہاد غیرت کے نام پر پورے ملک میں سب سے زیادہ یعنی 45 قتل ہوئے۔ 2013 میں یہاں اس قتل کی وارداتوں کی تعداد 28 تھی جو ملک بھر میں دوسرے نمبر پر رہی۔ گذشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائِے تو فیصل آباد کا ذکر اس حوالے سے ہمیشہ ملک کے پہلے پانچ شہروں میں رہا ہے۔ لاہور میں یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے 163 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے۔ 2014 میں تو یہ شہر وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا لیکن اس سے ایک سال پہلے لاہور 29 واقعات کے ساتھ اس بدنام فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر رہا۔ جیکب آباد میں اس عرصہ کے دوران 222 ایسے واقعات پیش آئے۔ 2014 میں 33 قتال کے ساتھ یہ ضلع ان واقعات کے لحاظ سے ملک کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ 2012 میں یہ اس بدنام فہرست میں دوسرے جبکہ 2011 میں تیسرے نمبر پر رہا۔ 2010 اور 2009 میں ملک بھر میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں جیکب آباد میں ہی رپورٹ کی گئی تھیں اور یہ تعداد بالترتیب 42 اور 36 تھی۔ لاڑکانہ میں یہ تعداد 158 ہے۔ کشمور میں 2014ء میں 2013, 25 میں 18 اور 2012 میں 31 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں‘ نصیر آباد میں 2011 میں 39 اور 2008ء میں 36 خواتین غیرت کی بھینٹ چڑھی‘ رحیم یار خان میں 2014 کے دوران 20 اور 2013 میں 15 ایسے قتل ہوئے‘ شکار پور میں 2010 میں 17‘ 2013ء میں 24 اور 2014ء میں 19 ایسے واقعات کی رپورٹس سامنے آئیں‘ گھوٹکی میں 2008ء اور اگلے چار سال بالترتیب 21, 37, 24, 34 اور 14 خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ سکھر میں 2009ء کے دوران 32 ایسے قتل ہوئے‘ 2011ء اور اگلے دو برس 20, 21 اور 19 خواتین کو مارا گیا۔ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی 30 فیصد وارداتوں میں شوہر اور 20 فیصد میں بھائی ملوث رہے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کو صوبہ کے حساب سے دیکھیں تو پنجاب میں 50 فیصد‘ سندھ 30 فیصد‘ بلوچستان 11 فیصد اور خیبر پی کے میں 9 فیصد ایسی وارداتیں سامنے آئی ہیں۔