ایک زمانہ تھا سال میں صرف وفاقی بجٹ کے موقع پر قیمتوں میں اضافے کا طوفان برپا ہوتا۔ اس کے بعد نئے بجٹ کی آمد تک سکون رہتا۔ اس دوران کاروباری حضرات اگر قیمتوں میں ناجائز اضافہ کی کوشش کرتے تو ضلع کی سطح پر قائم قیمتوں پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے فوری حرکت میں آ کر ایسی کسی بھی حرکت کو ناکام بنا دیتے۔ صوبائی یا وفاقی حکومت کو مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں چینی کا بحران پیدا کر کے ’’شوگر مافیا‘‘ کی کوششوں کو گورنر نواب امیر محمد خان نے محض مونچھوں کوتاؤ دے کر ناجائز منافع خوروں کو چینی کی قیمتیں واپس اپنی سطح پر لانے پر مجبور کر دیا تھا۔ محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ میں بجٹ کی آڑ میں بڑھائی گئی بہت سی اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں واپس ہوئیں۔ یہ سب ’’گڈ گورننس‘‘ اور حکمران طبقہ میں عام آدمی کے مسائل سے آگاہی اور ان کے لئے دلوں میں پائے جانے والے احساس کا نتیجہ تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ روز کا معمول ہے۔ عوام کی بے چینی اور پریشانی کا یہ ایک پہلو ہے۔ پوری قوم کو منافع خور تاجروں کے حوالے کردیا گیا ہے کہ جس طرح چاہیں عوام کو لوٹیں‘ نوچیں۔ نہ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے نہ روکنے والا۔ حکومتی ادارے کہیں دکھائی نہ دینے کا بھی نتیجہ ہے کہ تعلیم ہو یا صحت کی سہولتیں‘ تجارتی مال کی طرح ان کی حد سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ عوام میں اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ اوپر سے ملک میں جاری سیاسی انتشار اور نہ ختم ہونے والی اقتدار کے لئے لڑی جانے والی لڑائی ہے جس نے ہر پاکستانی کو عجیب بے یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن وہاں فلاح عامہ کے لئے قانون سازی کا فقدان ہے۔ عدالتیں ہیں تو وہاں بھی سیاست کے حوالے سے آئینی نوعیت کے مقدمات کی گونج سننے کو ملتی ہے۔ برسر اقتدار جماعت ہو‘ اپوزیشن یا قومی سطح کے سیاستدان ‘ عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں یہ سب ہماری سیاسی اشرافیہ کا درد سر نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں اس سے کوئی سروکار ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن پاکستان کی سلامتی کے خلاف کس طرح کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کا طویل دور دیکھا ہے اور ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کا ملک سے صفایا کیا گیا ہے اس کے بعد تو مختلف نظریات و منشور رکھنے کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کے زیرک عمائدین کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چایے تھا تاکہ ملک میں داخلی سطح پر عوام کو تحفظ و درپیش مسائل کے حل کے لئے متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے اور پاک فوج اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے اپنی تمام تر توجہ ملک کی سلامتی کیلئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی پر مبذول رکھے‘ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
2002ء کے بعد امریکہ‘ بھارت اور ان کی دیگر اتحادی قوتوں نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان میں دھکیل کر پاکستان کی سلامتی پر جس طرح کاری ضرب لگانے کی کوشش کی یہ کوئی زیادہ پرانی تاریخ نہیں ہے۔ کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب پاکستان میں کہیں خود کش دھماکہ یا دہشت گردی کی کارروائی نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے کرکٹ جیسے کھیل کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مارچ 2009ء میں لاہور میں مہمان سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے 18 برسوں بعد اب 2017ء میں پاکستان میں کھیلنے کے لئے عالمی سطح پر کرکٹ کے کھلاڑیوں میں اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے۔ ملک دشمنوں نے ہسپتالوں‘ عبادت گاہوں‘ سرکاری املاک‘ عسکری تنصیبات اور بچوں کے تعلیمی اداروں تک کو بھی نہیں بخشا۔ حالت یہ کر دی گئی کہ پرائمری سطح کے سکول بھی قلعہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ پاک فوج کے افسران و جوانوں سمیت 80 ہزار کے قریب پاکستانی دہشت گردی کی جنگ میں شہید کر دئیے گئے۔ دشمنوں کا منصوبہ انتہائی مربوط اور منظم حکمت عملی کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا۔ پاکستان نے نہ صرف اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ انتہائی حوصلہ اور جرأت کے ساتھ اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کر کے پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ان کامیابیوں میں پاک فوج کے ان نوجوان افسروں کا خون بھی شامل ہے جنہوں نے دوران اپریشن اپنے جوانوں سے آگے رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی ایک نئی تاریخ رقم کی جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ کیونکہ ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور آپریشنل مراکز ضرور ختم کر دئیے ہیں۔ دہشت گردوں کی اکثریت ماری گئی ہے یا فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور کر دی گئی ہے لیکن ان کے بہت سے نظریاتی سہولت کار ابھی تک کسی نہ کسی روپ میں یہاں موجود ہیں۔ جلد ہی ان کا بھی صفایا ہو جائے گا۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں آئندہ دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع نہ دیا جائے کیونکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں وہاں کی عوام کو پاکستان سے متنفر کرنے اور پاکستانی عوام کو پاک فوج سے بدظن کرنے کے لئے نئے انداز سے پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں پاک فوج کو عوامی مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر پاکستانی عوام کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاک فوج کے اقتدار پر کنٹرول تک عوام الناس کے مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں۔ پاکستان پر انتہائی پسندی کے فروغ‘ دہشت گردوں کو تربیت اور تحفظ فراہم کرنے جیسے الزامات میں پاک فوج کو ذمہ دار قرار دینے کے لئے اس وقت انٹرنیٹ پر بہت سے ’’بلوگ ویب سائٹس‘‘ اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کاطوفان برپا ہے لیکن اس سے ہٹ کر ’’مشعل ریڈیو‘‘ کے نام سے کویت‘ تھائی لینڈ‘ ابوداہبی‘ اور افغانستان میں قائم کئے گئے طاقت ور ٹرانسسٹرزکے حامل ’’براڈ کاسٹنگ سسٹم‘‘ کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مذکورہ تمام ریڈیو اسٹیشن امریکی تعاون سے مارچ 2003ء میں عراق پر امریکہ کے حملہ کے بعد قائم کئے گئے۔ اس وقت مقصد برطانیہ و امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں عراق پر حملے کی مخالفت میں نکالے گئے عوامی ’’ملین مارچ‘‘ کی بدولت عالمی رائے عامہ پر پڑنے والے اثرات کو زائل کرنا تھا اور صدام حسین کے پاس موجود ’’انسانیت کش‘‘ ایٹمی‘ جراثیمی اور کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹ کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانا تھا۔ (ٹھیک 8 برسوں بعد عراق پر حملے کے مغربی ممالک میں سمجھنے والے معمار امریکی وزیر خارجہ جنرل ریٹائرڈ کولن پاول نے ایک تقریب کے دوران عراق میں ’’انسانیت کش‘‘ ہتھیاروں کی موجودگی کو یہ کہہ کر جھوٹ قرار دے دیا کہ اس حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ سراسر جھوٹ پر مبنی تھی) بعدازاں ’’مشعل ریڈیو‘‘ کو مسلمانوں میں فرقہ واریت اور مغربی تہذیب اور اسلامی ریاستوں میں مادر پدر آزاد مغربیت کے فروغ کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ ان ریڈیو اسٹیشنوں سے مختلف زبانوں میں پروگرام نشر کئے جاتے ہیں لیکن افغانستان اور ابو داہبی سے جاری نشریات میں ہدف صوبہ بلوچستان‘ خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے عوام ہیں۔ سندھی تہذیب و زبان کے فروغ اور تحفظ کے نام پر سندھی قوم پرستی کو ہوا دینے کے لئے بھی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی‘ دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے حوالے سے جس طرح کے نفرت انگیز تجزیے نشر کئے جاتے ہیں انہیں سن کر کوئی بھی افغان پاکستان سے نفرت کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ بلوچ عوام کو ترقی کے لئے پاکستان سے علیحدگی کی پٹی پڑھائی جاتی ہے تو فاٹا اور خیبر پختونخوا کو افغانستان کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستانی عوام کو پاک فوج کے خلاف کرنے کے لئے پاکستان میں پاک فوج کے مظالم پر مبنی ایسے واقعات بھی نشر کئے جاتے ہیں جنہیں پاکستان میں آج تک نہ کبھی کسی نے دیکھا اور نہ سنا لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف جاری اس طرح کے مذموم پروپیگنڈے کے توڑ کے لئے حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان اگر ’’مشعل ریڈیو‘‘ سے اپنے خلاف جاری نشریات نہیں رکوا سکتا تو فاٹا و بلوچستان میں ایف ایم ریڈیو یا ہائی پاور ٹرانسسٹر کی تنصیب سے پاکستان کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا توڑ ضرور کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا‘ فاٹا کے عوام ہوں یا سندھ و پنجاب میں بسنے والے سب پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے وطن پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار ہی نہیں رہتے بلکہ ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں جس کا احساس پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور حکمران کرنے کو تیار نہیں۔ جن کی زندگی اور رہن سہن ملک کی 95 فیصد آبادی بالکل مختلف اور الگ ہے۔عوام کی اکثریت اور طبقہ خواص کے درمیان حائل یہی خلیج ہے جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگر اسے کم کرنے کی عملاً کوشش نہ کی گئی تو یہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ’’مشعل ریڈیو‘‘ سے جاری پروپیگنڈے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔