لاہور (بی بی سی اردو) مخدوم جاوید ہاشمی قومی سیاست کے ایک باعزت مِس فٹ بزرگ ہیں۔ ایسے بزرگ جن کے سبق آموز جرات مندانہ تجربات کی دھاک محلے میں ہر کسی پر ہوتی ہے۔ ان کی بات کو کوئی ناں نہیں کرتا اور دل ہی دل میں ہاں بھی نہیں کہتا۔ مخدوم صاحب میں 66 برس کی عمر میں بھی اتنی ہی توانائی ہے جتنی 45 برس پہلے کی پنجاب یونیورسٹی کے 21 سالہ طلبا یونین کے صدر میں تھی۔ برین ہیمبرج کا حملہ بھی ان کی شعلہ صفتی نہ بجھا سکا۔ 1972ء میں گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کو دو لڑکیوں کے اغوا کے شبہے میں رگیدنے سے لے کر اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بنگلہ دیش نامنظور چیختے ہوئے لاہور میں شاہ فیصل کے قافلے کے سامنے سڑک پر آجانے تک، بھٹو دشمنی کے جوش میں ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں چند ماہ کے لیے یوتھ منسٹر ہونے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار ایم این اے بننے اور پھر 1988 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اور پھر 23 برس بعد پاکستان تحریک انصاف میں ڈھائی برس گزار کے دوبارہ مسلم لیگ ن میں واپسی پر اصولی رضامندی تک ان کی طبیعت میں شاید سکون نہیں آیا ہے۔ عام طور سے اگر کوئی بندہ اسلامی جمیعت طلبا سے چھلانگ مار کے تحریک استقلال اور پھر وہاں سے ضیا کے غیر جماعتی نظام اور پھر مسلم لیگ ن اور پھر تحریک انصاف اور پھر واپس نون لیگ کی طرف آجائے تو ایسے شخص کو پاکستانی سیاست میں ’لوٹا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جاوید ہاشمی شاید واحد سیاستدان ہیں جنہیں دیکھ کر جہاندیدہ لوٹے بھی اپنا لوٹا پھینک کے نکل لیتے ہیں۔ اتنے راستے بدلنے کے باوجود بھی جاوید ہاشمی شاید اس لیے لوٹے کا خطاب نہ پا سکے کیونکہ انہوں نے اب تک جو بھی کامیاب یا ناکام سیاسی ہجرتیں یا فیصلے کیے وہ کسی ترغیب یا لالچ میں آ کر نہیں بلکہ طبیعت کے ہاتھوں کیے۔ نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصیبت کے وقت وہ اور لوگوں پر تکیہ کرتے ہیں اور راحت ملتی ہے تو تکیے بھی بدل جاتے ہیں۔ اب نواز شریف ایک بار پھر مصیبت میں ہیں اور جاوید ہاشمی کی کمزوری ہے کہ آواز اگر انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ محسوس ہو تو دوڑے چلے جاتے ہیں۔ یہ جاوید ہاشمی کی بڑائی ہے کہ مجھے کیوں نکالا فیم نواز شریف سے سات برس بعد ہونے والی ملاقات میں انہوں نے نہیں پوچھا ’مجھے کیوں بلایا؟‘ اب انتظار ہے اس وقت کا جب نواز شریف کے برے دن ختم ہوں اور کوئی چوہدری نثار علی پھر معاملات خوش اسلوبی سے سنبھال لے اور جاوید ہاشمی ایک بار پھر ’ہاں میں باغی ہوں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سوٹا گھماتے ہوئے کسی پگڈنڈی پر چلتا جا رہا ہو۔